غربت کے مارے پاکستان کی امیر سرکار کی عیاشیاں ۔۔۔اقوام متحدہ سے بھی زیادہ مراعات۔ ۔ 14 کھرب کی رہائشیں: سرکاری تحقیق
اسلام آباد(ریسرچ رپورٹ) پاکستان میں میں عام طور پر تاثر ہے کہ گریڈ سترہ سے اوپر کے سرکاری افسران کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں کم ہیں اور یہ افسران کم تنخواہوں پر ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے ایک سرکاری تھِنک ٹینک کی اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ مل کر کی گئی ایک تحقیق میں سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔ پائیڈ نے یہ تحقیق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب کچھ سیلری سلپ پر نہیں لکھا ہوتا بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ مالیت کی مراعات غیر محسوس طریقے سے سرکاری افسران تک پہنچتی ہیں اس لیے بہتر ہے کہ سرکاری افسران کو تمام مراعات کیش کی شکل میں دی جائیں۔
اسی طرح ورلڈ بینک کے ورلڈ بیوروکریسی انڈیکیٹر کے مطابق پاکستان میں سرکاری شعبے میں تنخواہیں پرائیویٹ شعبے سے 53 فیصد زیادہ ہیں۔
پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ایک گریڈ 20 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ 660 روپے ہے مگر اصل میں اسے حاصل مراعات اور فائدے ماہانہ سات لاکھ 29 ہزار 511 روپے کے برابر ہیں۔
گریڈ 20 کے افسر کو دی گئی کار کے تمام اخراجات، گھر اور طبی سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس کی بنیادی تنخواہ سے بھی سات گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح سرکاری تحقیق کے مطابق گریڈ 21 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 11ہزار 720 روپے ہے تاہم ان کی کار، گھر اور طبی اخراجات کے ساتھ ان کو ملنے والے مالی فوائد ماہانہ تقریبا 10 لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ گویا ان کی اصل تنخواہ بنیادی تنخواہ سے گیارہ گنا زائد ہوتی ہے۔
اس طرح گریڈ 22 کے ایک سرکاری افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ 23 ہزار 470 روپے ہوتی ہے مگر اسے دراصل 11 لاکھ روپے کے مالی فوائد ہر ماہ دستیاب ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک وفاقی سیکریٹری کو ان کے ہم پلہ اقوام متحدہ کے افسر سے بھی زیادہ مالی فوائد ماہانہ ملتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سیکریٹری لیول افسر کو تقریباً نو لاکھ 10 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔
جوں جوں سرکاری افسران کے گریڈ بڑھتے جاتے ہیں تو ان کی بنیادی تنخواہ اور مراعات کا تناسب بھی بڑھتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر گریڈ 20 اور 22 کے افسران کی جانب سے سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال سے ان کے اوپر خرچ ہونے والی رقم ان کی بنیادی تنخواہ سے بھی ایک اعشاریہ دو گنا بڑھ جاتی ہے۔
پائیڈ نے اپنی تحقیق میں تجویز دی ہے کہ سرکاری افسران کی تنخواہ بھی ان کے ہم پلہ پرائیویٹ سیکٹر ملازمین کے برابر ہونی چاہیے اور ان کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ بھی ان کی کارکردگی سے مشروط ہونا چاہیے۔
اس سرکاری تحقیق کے مطابق سرکاری ملازمین کے زیر استعمال رہائش گاہوں کی کل قیمت تقریباً ساڑھے 14 کھرب یا ڈیڑھ ٹریلین روپے کے برابر ہے۔ حکومت ان تمام سرکاری گھروں کو پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر 14 کھرب سے زائد رقم حاصل کر سکتی ہے۔
ان تمام مکانات کو اگر حکومت کرائے پر دے دے تو اس سے سالانہ تقریباً 11 ارب روپے کرائے کی مد میں حکومت کو حاصل ہوں گے۔