فٹ پاتھوں، سروس روڈز، گرین بیلٹس، واک ویز اور گلیوں سے تجاوزات کا خاتمہ کر کے کراچی کی خوبصورتی کا پلان تشکیل دیں: وزیر اعلی سندھ

انتظامیہ، بلدیاتی اداروں، ڈیولپمنٹ اتھارٹیز اور پولیس کو ہدایات

بحیثیت سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں تاکہ اس شہر کو خوبصورت بنایا جا سکے لیکن متعلقہ حکام کی پشت پناہی حکومت کی تمام کاوشوں کو ملیہ ملیٹ کرنے کیلئے اپنے علاقوں میں تجاوزات قائم کی جاتی ہیں۔

یہ ہدایات انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں تجاوزات کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جاری کیں، اجلاس میں صوبائی وزراء ناصر شاہ، سعید غنی، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ، کمشنر کراچی حسن نقوی، ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب، سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ، سیکریٹری خزانہ فیاض علی جتوئی، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن، ایم ڈی ایس ایس ڈبلیو ایم بی امتیاز شاہ، ڈی جی ایس بی سی اے رشید سولنگی، سی ای او واٹر بورڈ صلاح الدین، ڈی جی کے ڈی اے تمام ڈپٹی کمشنرز اور دیگر نے شرکت کی۔

••• واک ویز، گرین بیلٹس اور گلیوں پر تجاوزات:
وزیراعلیٰ نے کہا کہ فٹ پاتھ، گرین بیلٹس، واک ویز اور گلیوں پر تجاوزات نے شہر کو خراب کر دیا ہے اور پیدل چلنے والوں کو بھی روانی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن کوئی اتھارٹی انہیں ہٹانے کو تیار نہیں۔ وزیراعلیٰ نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی ادارے کو گرین بیلٹس، فٹ پاتھ اور واک ویز پر تجاوزات کی اجازت دینے کا اختیار نہیں ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کچھ پرائیویٹ دفاتر نے متعلقہ لوکل باڈی اور ڈپٹی کمشنر کے ہوتے ہوئے بھی فٹ پاتھ پر اپنے جنریٹر کیسے لگائے ہیں؟ انہوں نے تمام انتظامیہ، KMC، ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز (TMCs)، پولیس، اور ترقیاتی حکام کو اپنے کردار اور ذمہ داریوں کو واضح کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر بلدیات سعید غنی اور میئر کراچی نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے ان کے انسداد تجاوزات ونگ ہیں لیکن اتنے فعال نہیں ہیں جتنے کہ انہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ نے کے ایم سی، ٹی ایم سیز اور انتظامیہ کو پولیس کے تعاون سے عوامی مقامات سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت کی، انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ تجاوزات کو مناسب وقت دیں اور پھر ایک بھرپور آپریشن شروع کریں۔

سڑکوں سے ملبہ ہٹانا:
اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ملبہ اور تعمیراتی سامان فٹ باتھ، سروس روڈز اور یہاں تک کہ مین سڑکوں پر پڑا ہوا ہے۔
وزیراعلیٰ نے ایس بی سی اے کو ہدایت کی کہ وہ تمام بلڈرز سے ذمہ لیں اور انہیں کہیں کہ وہ تعمیراتی سامان کو ڈمپ کرنے کیلئے عوامی جگہوں کا استعمال نہیں کریں گے، دریں اثناء انتظامیہ ایسے سرکاری اور پرائیویٹ بلڈرز کے خلاف ایک مہم شروع کرے گی، ان کے خلاف بھاری جرمانے عائد کرے گی اور ان کا سامان ضبط کرے گی۔

••• سڑکوں کی کھدائی :

وزیراعلیٰ نے کہا کہ مختلف اتھارٹیز جیسے کے ایم سی، کے ڈی اے، ٹی ایم سی اور دیگر سڑکیں کاٹنے کی اجازت دے رہے ہیں اور چارجز وصول کر رہے ہیں لیکن سڑکوں کی تعمیر نو میں ناکام رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ روڈ کٹنگ کے چارجز پر نظرثانی کی جائے اور کھودی گئی سڑک کو تین ماہ کے اندر دوبارہ تعمیر کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے، انہوں نے کہا کہ سرٹیفیکیشن کا طریقہ کار ہونا چاہیے۔

••• غیر قانونی چارج شدہ پارکنگ:
اجلاس میں بتایا گیا کہ سڑکوں پر متعدد غیر قانونی چارج شدہ پارکنگ تیار کی گئی ہیں، یہ غیر قانونی پارکنگ ٹریفک کے سنگین مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے مقامی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ٹریفک پولیس کی مشاورت سے پارکنگ کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جائے اور تمام غیر مجاز کو ہٹا دیا جائے، شرکاء نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ زیادہ تر شاپنگ پلازوں کی پارکنگ ایریاز ہیں لیکن انہوں نے انہیں گوداموں میں تبدیل کر کے کرائے پر دے دیا ہے۔
مراد علی شاہ نے ایس بی سی اے کو ہدایت کی کہ پارکنگ ایریا والے شاپنگ پلازوں کی فہرست کمشنر کراچی کے ساتھ شیئر کی جائے، کمشنر اپنے ڈی سی اور ایس ایس پی ایس کے ذریعے ان کے خلاف آپریشن شروع کریں گے اور ان کے پارکنگ ایریاز کو بحال کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے غیر قانونی پارکنگ کے مسائل حل کرنے کے لیے کمشنر کے ماتحت ٹریفک مینجمنٹ تشکیل دی۔

••• بل بورڈز:
اجلاس کو بتایا گیا کہ بل بورڈز کے لیے شہر کی نقشہ سازی کی جائے گی تاکہ وہ صرف منظور شدہ سائز کے مطابق مقررہ جگہ پر لگائے جا سکیں، انہوں نے کے ایم سی کو ہدایت کی کہ وہ بل بورڈز کے لیے اپنی تجاویز جمع کرائیں، انہوں نے مزید کہا کہ چھتوں پر لگائے گئے بل بورڈز خطرناک ہیں۔

••• خدمات کی بہتری: وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہریوں کو دی جانے والی خدمات جیسے پیدائش/ موت/ وراثت کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے بارے میں عمومی تاثر اور شکایات ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ کے ایم سی، ٹاؤنز، یونین کونسلز اور یہاں تک کہ ڈی سی دفاتر کے ذریعے سرٹیفیکیشن سسٹم کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ڈومیسائل اور پی آر سی سمیت سرٹیفیکیشن سسٹم کو ہموار اور آسان بنائیں اور انہیں رپورٹ کریں۔

••• پانی کی قلت: وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ شہر کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، واٹر بورڈ کا موقف تھا کہ وہ عدالتی حکم پر ٹاؤنز میں پانی کی تقسیم کے لیے کام کر رہے ہیں، تمام ٹاؤنز میں منصفانہ طور پر پانی کی تقسیم کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے اور اس پر عمل درآمد سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل ہو جائے گا، جہاں تک شہر میں پانی کی دستیابی کا تعلق ہے تو وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ یہ 590 ایم جی ڈی ہے اور 615 ایم جی ڈی کا شارٹ فال ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت شہر کے بلک سسٹم میں مزید پانی ڈالنے کے لیے محنت سے کام کر رہی ہے لیکن اس میں وقت لگے گا، اس دوران کے ڈبلیو ایس بی کو لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اپنے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔

••• ایس بی سی اے: وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ بنیادی طور پر پانچ قسم کی خلاف ورزیاں ہوئیں جن میں پلاٹ لائن کے اندر لازمی کھلی جگہ کی خلاف ورزی، بڑے علاقے کی تعمیر، منظور شدہ منزلوں کی تعداد کے اندر کھلی نالیوں کی خلاف ورزی، منظور شدہ تعداد سے زائد منزلوں کی خلاف ورزی ، فرش اور منظور شدہ پارکنگ اور منصوبے کی سہولیات کی خلاف ورزی اور منظور شدہ زمین کے استعمال کے منصوبے کا غلط استعمال شامل ہیں، 399 مربع گز تک کے رہائشی پلاٹوں کے لیے منزلوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی اجازت ہے، (جی پلس ٹو فلور) منصوبہ بند علاقوں میں، جبکہ (گراؤنڈ پلس پہلی منزل) بیسمنٹ کے ساتھ 400 مربع گز کے رہائشی پلاٹوں کے لیے جائز ہےاور سوائے پرانے شہر کے علاقوں کے۔
وزیراعلیٰ نے ایس بی سی اے کو غیر قانونی اور غیر منظور شدہ تعمیرات کے خلاف آپریشن شروع کرنے اور رپورٹ کرنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا میں 10 محرم کے بعد اگلی میٹنگ میں SBCA کے مسائل کی پیش رفت کا جائزہ لوں گا۔ وزیراعلیٰ نے کمشنر کراچی کو تمام سڑکوں اور گلیوں سے غیر ضروری اوور ہیڈ کیبلز ہٹانے کی ہدایت کی، انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ ان کے حکم پر عملدرآمد کرائیں اور ان کی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں۔

متعلقہ خبریں