شاہد حامد قتل کیس: متحدہ کے دو کارکنان بری

کراچی

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تقریباً 28 سال پرانے شاہد حامد قتل کیس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دو کارکنان محمد منہاج قاضی عرف اسد اور محبوب غفران عرف اطہر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف کوئی معتبر، قابلِ اعتماد اور ناقابلِ تردید شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔ گواہوں کے بیانات میں تضادات اور شواہد میں سقم کی بنیاد پر عدالت نے ملزمان کو الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا، بشرطیکہ وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہوں۔

یاد رہے کہ 5 جولائی 1997 کو اس وقت کے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اور گارڈ کو ڈیفنس میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں ایم کیو ایم کے کارکن اور خود اعترافی قاتل صولت مرزا کو 1999 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور مئی 2015 میں اسے بلوچستان کی مچھ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔

ملزم منہاج قاضی کو 2016 میں رینجرز نے گرفتار کیا، جب کہ محبوب غفران 2017 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں آیا۔ دونوں گزشتہ آٹھ برس سے اس مقدمے کا سامنا کر رہے تھے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ عینی شاہدین، بشمول مقتول کی بیوہ اور بیٹے، کے بیانات میں نمایاں تضادات تھے اور ابتدائی بیانات میں ان کی موجودگی کا ذکر تک نہیں تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ "گواہوں کے بیانات تضادات، غیر معتبر بہتریوں اور جانبداری سے بھرے ہوئے تھے، اس لیے انہیں قابلِ اعتماد شہادت نہیں مانا جا سکتا۔”

مزید برآں، شناخت پریڈ میں پانچ دن کی تاخیر اور ملزمان کی گرفتاری سے پہلے میڈیا پر ان کی تصاویر نشر ہونے کو بھی عدالت نے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مبینہ اعترافی بیانات قانونی تقاضوں کے مطابق ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

علاوہ ازیں، عدالت نے منہاج قاضی کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے کیس میں بھی شک کی بنیاد پر بری کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ 19 برس بعد مبینہ طور پر برآمد ہونے والی کلاشنکوف کی حالت اور شواہد مشکوک ہیں۔

عدالت نے مقدمے میں مفرور ملزمان، بشمول ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور دیگر کے خلاف کیس کو ان کی گرفتاری تک غیر فعال رکھنے کی ہدایت کی۔

متعلقہ خبریں