پشاور: بلدیاتی نظام کی بہتری کے لیے اصلاحات کی سفارشات
پشاور میں ایک مشاورتی اجلاس کے دوران مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایڈووکیسی پینل نے صوبے میں بلدیاتی نظام کے مؤثر اور خودمختار انداز میں کام کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اصلاحات کی سفارش کی۔
یہ اجلاس بلیو وینز تنظیم نے “Strengthening Local Government to Promote Democracy in Pakistan” کے تحت منعقد کیا، جس میں وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے آبادی لیاقت علی خان، ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ ایڈوائزری کمیٹی پشاور کے چیئرمین و رکنِ صوبائی اسمبلی شیر علی آفریدی، رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ، اور بلدیاتی نمائندگان شریک ہوئے۔
آواز سی ڈی ایس پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ضیاالرحمن نے سول سوسائٹی کے وائٹ پیپر “Pioneer Paradox” کا اجرا کیا، جس میں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کی 2024-25 کی کارکردگی، چیلنجز، بجٹ مسائل اور مالی مشکلات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا۔ شرکاء نے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی میں موجود خلا اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے حکمتِ عملی پر مباحثہ کیا۔
اپنی پریزنٹیشن میں ضیاالرحمن نے کہا کہ خیبرپختونخوا ہمیشہ بلدیاتی اصلاحات کے حوالے سے آگے رہا ہے، خاص طور پر اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد جب آرٹیکل 140-A کے تحت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی لازم قرار دی گئی۔ تاہم عملی طور پر یہ عمل سیاسی و انتظامی رکاوٹوں کے باعث کمزور رہا۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے بلدیاتی اصلاحات کی حمایت کا دعویٰ تو کیا، لیکن اکثر اس پر عملدرآمد اس کے برعکس رہا، جس کی وجہ سے اختیارات اور وسائل پر گراس روٹ سطح پر سیاسی کشمکش بڑھی، جو 2021-22 کے بلدیاتی انتخابات کے بعد مزید شدت اختیار کر گئی۔
اجلاس میں تجویز دی گئی کہ موجودہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو فوری طور پر فعال اختیارات دیے جائیں تاکہ ان کا مینڈیٹ مؤثر ہو سکے، کیونکہ ان کی مدت وسط 2026 میں مکمل ہو گی۔ مزید یہ کہ صوبائی حکومت کو 23 مئی 2025 کے پشاور ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے پر مکمل عمل درآمد کرنا ہوگا، جس کے مطابق 2022 کی ترامیم غیر آئینی قرار دی گئی تھیں۔ اس فیصلے کے تحت انتظامی اختیارات میئرز اور چیئرمینز کو منتقل کیے جائیں جیسا کہ بنیادی بلدیاتی قانون میں درج ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی شیر علی آفریدی نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبے کو آبادی کے اضافے اور محدود مالی وسائل کی وجہ سے انتظامی و حکمرانی کے مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم امید ہے کہ نئے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبے کو اضافی حصہ ملے گا جس سے مسائل حل ہو سکیں گے۔