کراچی: اربن ریسورس سینٹر نے منگل کو ماہرین کی ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں معروف آرکیٹیکٹ و ٹاؤن پلانر عارف حسن اور این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے شہری سیلاب کے اسباب اور نقصانات پر روشنی ڈالی۔
پروفیسر نعمان احمد نے کہا کہ اس سال کراچی، لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد، سرگودھا اور قصور جیسے شہروں میں اوسط سے زیادہ بارش ریکارڈ ہوئی جس نے نشیبی علاقوں کو فوراً زیرِ آب کر دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سڑکیں تو پانی میں ڈوب جاتی ہیں لیکن نکاسی کے نالوں میں بارش کا پانی نہیں پہنچتا کیونکہ ترقیاتی منصوبوں کے دوران نکاسی کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارش کے پانی کو دریا یا سمندر تک پہنچانے کے لیے طوفانی نالوں کا نظام فعال ہونا چاہیے لیکن موجودہ صورتحال میں یہ ممکن نہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی اور قدرتی نالوں کی بحالی ناگزیر ہے۔
عارف حسن نے کہا کہ شمالی اور پہاڑی علاقوں سے پانی کا قدرتی بہاؤ سمندر کی طرف ہوتا ہے مگر اس کے راستے میں نئی آبادیاں قائم کر دی گئی ہیں، جیسا کہ سادی ٹاؤن اور دیگر رہائشی بستیاں۔ انہوں نے کہا کہ "یہ فطرت کے خلاف چھیڑ چھاڑ ہے، سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پانی کے بہاؤ کے راستے میں کوئی تعمیر نہ ہو۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یو آر سی کے 2020 کے سروے میں پتا چلا تھا کہ محمود آباد نالے میں شامل ہونے والے 34 چھوٹے نالوں میں سے 30 بند ہیں۔ محمود آباد نالے کے 18 اخراجی مقامات میں سے بھی صرف 4 کھلے ہیں جبکہ باقی 14 بند کر دیے گئے ہیں، جس سے نکاسی نہایت کمزور ہو گئی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کراچی کی تقریباً 27 لاکھ عمارتوں کی چھتوں سے بہنے والا پانی براہِ راست سڑکوں پر آتا ہے لیکن اس پانی کو لیاری یا ملیر ندی کی طرف لے جانے پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ "ہم نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالے صاف کرنے کے نام پر لوگوں کو بے گھر کر دیا لیکن سیلاب کا مسئلہ جوں کا توں ہے،” انہوں نے کہا۔
ماہرین نے زور دیا کہ حل عوام دوست ہونا چاہیے کیونکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پہاڑوں میں برف پگھلنے کی رفتار تیز ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ آئندہ برسوں میں مزید پانی نشیبی علاقوں کی طرف آئے گا۔
اس موقع پر شرکاء نے 19 اگست کی بارش میں شہریوں کو درپیش مشکلات کے واقعات بھی شیئر کیے جبکہ منگل کو نیپا چورنگی پر اب تک کھڑے پانی کی ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی علاقوں میں نکاسی تاحال ممکن نہیں ہو سکی۔