کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ہفتے کے روز صوبائی حکومت کو کراچی کے سنگین شہری مسائل پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے کراچی اسٹریٹجک ڈویلپمنٹ پلان 2020 پر فوری عملدرآمد یقینی بنائے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پارٹی رہنما حیدر عباس رضوی نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے جان بوجھ کر کے ایس ڈی پی 2020 کو نظر انداز کیا اور کھربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ضائع کر دیے، جسے انہوں نے "قومی جرم” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں تاکہ صوبائی حکومت کو وفاقی پالیسیوں اور قوانین پر عملدرآمد کا پابند بنایا جا سکے۔
کے ایس ڈی پی 2020 ماسٹر پلان گروپ آف آفسز اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے تیار کیا تھا، جس کا مقصد کراچی کو عالمی معیار کا شہر اور علاقائی معاشی مرکز بنانا تھا۔ یہ منصوبہ اس وقت کی منتخب شہری حکومت نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور بعد ازاں 2020 میں سپریم کورٹ واٹر کمیشن نے اسے گزٹ کیا۔
ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کراچی کے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں، جبکہ حقیقت میں ایک نیا جعلی منصوبہ بنا کر شہر کی ترقی کو مزید مؤخر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت ان افراد کے خلاف تحقیقات کی جائیں، جن میں حکومتی اراکین اور افسران شامل ہیں، جو اس منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کے ریونیو میں 70 فیصد سے زائد اور سندھ کے ریونیو میں 98 فیصد حصہ ڈالتا ہے لیکن یہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ "یہ شہر مافیاؤں اور کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے”، انہوں نے الزام لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ شہری گزشتہ 20 برسوں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں، بچوں کو بنیادی ویکسین تک میسر نہیں، اور ریبیز ویکسینیشن کے لیے مختص اربوں روپے ضائع کر دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہ بھٹو، یونیورسٹی روڈ، حب کینال اور کریم آباد انڈر پاس جیسا بنیادی انفراسٹرکچر کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال اسٹریٹ کرائم کے 54 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی اور مافیاز سے ملی ہوئی ہے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم کے سینیٹر خالدہ عتیب، قومی اسمبلی کے اراکین احمد سلیم صدیقی، سبین غوری اور رانا انصار، جبکہ صوبائی اسمبلی کے اراکین عبد الوسیم، مظاہر عامر، جمال احمد، ڈاکٹر عبدالباسط، اعجازالحق، عادل عسکری، فیصل رفیق، رانا شوکت، فرح سہیل، بلقیس مختار اور قرۃ العین بھی موجود تھے۔