لاہور: لاہور کے بدنام زمانہ گینگسٹر خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ گزشتہ رات سی سی ڈی ٹیم اور نامعلوم مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوگیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق طیفی بٹ کو انٹرپول کی مدد سے دبئی میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے پاکستان لایا گیا، جہاں سے سی سی ڈی کی ٹیم اسے سڑک کے ذریعے لاہور منتقل کر رہی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ جب ٹیم ضلع رحیم یار خان کے علاقے سنجر پور کے قریب پہنچی تو ایک درجن سے زائد مسلح حملہ آوروں نے سی سی ڈی کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ اس فائرنگ میں ایک پولیس افسر شدید زخمی ہوگیا جبکہ حملہ آور ٹیفی بٹ کو چھڑا کر لے گئے۔
پولیس کے مطابق کچھ گھنٹوں بعد صبح تقریباً پانچ بجے رحیم یار خان کے قریب دو مشتبہ گاڑیوں کی نشاندہی پر سی سی ڈی ٹیم نے ان کا تعاقب کیا، جس دوران تقریباً پچیس منٹ تک شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ فائرنگ کے بعد موقع سے ایک شدید زخمی شخص کو اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ دم توڑ گیا۔ بعد ازاں اس کی شناخت خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ کے طور پر ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ فائرنگ کے دوران ایک اور پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا، جسے قریبی اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق مقامی پولیس اور سی سی ڈی کی ٹیمیں مل کر واقعے میں ملوث حملہ آوروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق ٹیفی بٹ، امیر بالاج ٹیپو کے قتل کیس میں مرکزی ملزم تھا۔ امیر بالاج فروری 2024 میں ایک شادی کی تقریب کے دوران قتل ہوا تھا۔ اس کیس میں عقیل بٹ عرف گوگی بٹ بھی نامزد ہے جو اس وقت ضمانت پر رہا ہے، جبکہ ٹیفی بٹ مفرور قرار دیا گیا تھا۔
تحقیقات کے مطابق طیفی بٹ قتل کے فوراً بعد برطانیہ کے شہر گلاسگو فرار ہوگیا تھا، جہاں سے وہ ویزا ختم ہونے پر دبئی گیا تاکہ لندن ویزا کی تجدید کروا سکے، اور وہیں سے اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور کے انڈرورلڈ میں ٹیپو خاندان اور بٹ گروپ کے درمیان دشمنی کئی دہائیوں پرانی ہے۔ یہ دشمنی اس وقت مزید بڑھی جب امیر بالاج کے دادا امیرالدین عرف بلا ٹرکاں والا 1998 میں قتل ہوئے، پھر ان کے والد ٹیپو ٹرکاں والا کو 2010 میں مخالف گروہ نے قتل کردیا۔
پولیس افسران کے مطابق لاہور میں انڈرورلڈ سرگرمیاں خاص طور پر 2008 میں شہباز شریف کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران اپنے عروج پر تھیں۔ اس وقت کے بڑے ڈانز میں گوگی بٹ، طیفی بٹ، عارف امیر عرف ٹپو ٹرکاں والا، سعید لمبی والا، ساجد باسا اور مبین بٹ شامل تھے۔ کئی کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جبکہ کچھ نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر کے پناہ حاصل کر لی۔
ذرائع کے مطابق امیر بالاج نے حال ہی میں پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی، جس پر مخالف گروہ میں تشویش پائی جاتی تھی۔
پولیس حکام کو خدشہ ہے کہ طیفی بٹ کی ہلاکت کے بعد لاہور کے انڈرورلڈ میں ایک نئی لہر شروع ہوسکتی ہے جو مزید پرتشدد کارروائیوں کا پیش خیمہ بنے گی۔
ادھر لاہور ہائی کورٹ نے جولائی میں سی سی ڈی کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان مقابلوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے تھے کہ روزانہ درجنوں درخواستیں جعلی پولیس مقابلوں سے متعلق آ رہی ہیں، اس رجحان کو فوری روکا جائے۔
عدالت نے کہا تھا کہ ’’ہر مقابلے میں گولی اتنی ذہین ہوتی ہے کہ کبھی پولیس والے کو نہیں لگتی،‘‘ اور یہ بھی کہ تمام ایف آئی آرز ایک جیسے بیانات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ طیفی بٹ کی ہلاکت کے بعد اس پورے واقعے کی عدالتی اور تفتیشی سطح پر تحقیقات کی جائیں گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ پولیس مقابلہ تھا یا منصوبہ بند کارروائی۔