لاہور: پنجاب حکومت نے جمعے کے روز اپنے فضائی معیار کی نگرانی کے نظام میں تعطل کا باضابطہ اعتراف کر لیا، چند گھنٹے بعد جب ماحولیاتی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے الزام لگایا کہ لاہور میں آلودگی کی اصل صورتحال چھپانے کے لیے مانیٹرنگ اسٹیشنز جان بوجھ کر بند کر دیے گئے ہیں۔
محکمہ تحفظِ ماحولیات و ماحولیاتی تبدیلی پنجاب (EPCCD) نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (X) پر جاری ایک بیان میں کہا کہ "تکنیکی خرابی کے باعث بعض اسٹیشنز پر ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کی مانیٹرنگ عارضی طور پر متاثر ہوئی ہے”، تاہم ایک ٹیم ڈیٹا کی بحالی پر کام کر رہی ہے اور جلد تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔
یہ اعتراف اُس وقت سامنے آیا جب ماحولیاتی تجزیہ کار دور حامد بٹ نے سوشل میڈیا پر شواہد شیئر کیے جن میں دکھایا گیا کہ لاہور کے متعدد مانیٹرنگ اسٹیشنز کئی گھنٹوں سے ڈیٹا اپڈیٹ نہیں کر رہے، بعض میں 30 اکتوبر کی معلومات اب تک موجود تھیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ "محکمہ ماحولیات نے لاہور میں مانیٹرنگ اسٹیشنز بند کر دیے ہیں، اور جو فعال ہیں وہ بھی ’بے حد خطرناک‘ سطح دکھا رہے ہیں۔ یہ سوچنا کہ آنکھیں بند کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا، مکمل ناکامی کی علامت ہے۔”
ایک اور صارف حسن آفتاب نے دعویٰ کیا کہ "پنجاب حکومت کی نئی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اگر فضائی آلودگی زیادہ دکھائی دے تو مانیٹر بند کر دو۔” انہوں نے لکھا کہ "لاہور میں رات 10 بجے کے بعد 10 میں سے 8 مانیٹر بند ہو جاتے ہیں تاکہ اوسط سطح کم نظر آئے۔”
انہوں نے صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ “مانیٹرنگ کا ڈیٹا شفاف اور بلا تعطل ہونا چاہیے تاکہ حکومت کو مؤثر حکمت عملی بنانے میں مدد ملے۔”
تاہم محکمہ ماحولیات کے ترجمان ساجد بشیر نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ ہر گھنٹے بعد فضائی معیار کا ڈیٹا اپڈیٹ کرتا ہے، اور جو اسکرین شاٹس سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے وہ "غلط اور گمراہ کن” ہیں۔
انہوں نے وضاحت دی کہ 30 اکتوبر کو صبح 3 بجے سے 31 اکتوبر دوپہر 3 بجے تک ڈیٹا ٹرانسمیشن میں 12 گھنٹے کی تاخیر ضرور ہوئی، مگر مانیٹرنگ کا عمل جاری رہا اور تمام معلومات بحال کر لی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "نہ تو کوئی اسٹیشن بند کیا گیا اور نہ ہی کوئی ڈیٹا ضائع ہوا۔” محکمہ پنجاب بھر کے بڑے شہروں میں چھ اقسام کے فضائی آلودگی کے اجزا کو عالمی معیار کے مانیٹرز سے ناپتا ہے اور عوام تک درست معلومات پہنچانے کا پابند ہے۔
دوسری جانب، جمعے کی صبح لاہور دنیا کے سب سے آلودہ شہروں کی فہرست میں پھر سرفہرست رہا، جب ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 517 تک جا پہنچا — جو “انتہائی خطرناک” درجہ ہے۔
رات 10 بجے تک مختلف مقامات پر اے کیو آئی کی صورتحال کچھ یوں رہی:
سول سیکریٹریٹ 476، سی ای آر پی آفس 437، جنگلات محکمہ (راوی روڈ) 431، زیکی فارمز 424، وائلڈ لائف اینڈ پارکس (ساندہ روڈ) 407، سٹی اسکول علامہ اقبال ٹاؤن 390، جی سی یونیورسٹی ہائیکنگ کلب 350، شادمان مارکیٹ 320، پیراگون 308 اور پاکستان انجینئرنگ سروسز 308۔
جبکہ ملتان میں اے کیو آئی 435، گوجرانوالہ 379، بہاولپور 304 اور سیالکوٹ 261 ریکارڈ کیا گیا۔
پولیس کی انسدادِ اسموگ مہم
پنجاب پولیس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران لاہور سمیت مختلف اضلاع میں اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر 22 مقدمات درجکیے اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔
پولیس ترجمان کے مطابق 1,539 افراد پر مجموعی طور پر 30 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ 53 افراد کو وارننگ دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق خلاف ورزیوں میں فصلوں کی باقیات جلانے کے 11 کیسز، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے 1,317، صنعتی سرگرمیوں کے 8 اور بھٹہ خشت کے 14 کیسز شامل ہیں۔
سال 2025 کے دوران اب تک 1,915 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور 1,854 افراد گرفتار کیے گئے، جبکہ 21 کروڑ روپے سے زائد کے جرمانے 82,000 سے زیادہ افراد پر عائد کیے گئے ہیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے تمام افسران کو ہدایت کی کہ شاہراہوں، صنعتی علاقوں اور زرعی مقامات پر اسموگ کے خلاف کارروائی مزید تیز کی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت فوری ایکشن لیا جائے۔