کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال نیپا کے قریب اتوار کی شب کھلے مین ہول میں گرنے والے تین سالہ بچے کی تلاش کے لیے ریسکیو اہلکاروں کا آپریشن پیر کو بھی جاری رہا۔
واقعے کے بعد علاقے میں احتجاج بھی شروع ہوگیا، جس کے باعث ٹریفک پولیس کے مطابق نیپا فلائی اوور کے قریب یونیورسٹی روڈ بند ہوگئی اور ٹریفک کو راشد منہاس روڈ اور جوہر موڑ کی جانب موڑ دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں بڑی تعداد میں شہری موقع پر موجود دکھائی دیے، جبکہ ایک ویڈیو میں بچے کی غمزدہ ماں دہائی دے رہی ہے کہ کوئی اس کے بچے کو بچائے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان حسان الحق حسیب خان نے ڈان کو بتایا کہ اتوار کی رات تقریباً دس بجے واقعے کی اطلاع ان کے سینٹرل کمانڈ کو موصول ہوئی۔ ان کے مطابق بچہ اپنے والدین کے ہمراہ نیپا کے قریب ایک نجی ڈپارٹمنٹل اسٹور میں خریداری کے بعد باہر نکلا تھا کہ کھلے مین ہول میں جاگرا۔
ترجمان نے بتایا کہ عموماً ریسکیو ٹیمیں اندھیرے میں سرچ آپریشن نہیں کرتیں کیونکہ روشنی نہ ہونے کے باعث مشکلات پیش آتی ہیں، تاہم جائے وقوعہ پر مشتعل ہجوم اور والدین کی حالت کے پیش نظر رات ہی کو تلاش کا عمل شروع کیا گیا۔ اس کے باوجود بچے کا سراغ نہ مل سکا۔
انہوں نے بتایا کہ رات گئے تک تلاش جاری رہی، پھر عارضی طور پر روک دی گئی، مگر بھاری مشینری کی مدد سے پانچ مقامات کی کھدائی کی جاچکی ہے۔ ریسکیو ٹیم نے متعلقہ حکام سے زیرِ زمین سیوریج لائن کا نقشہ بھی طلب کیا ہے تاکہ پانی کے بہاؤ کے درست داخلی و خارجی راستوں کا تعین کرکے تلاش کو درست مقام تک محدود کیا جاسکے۔
میئر کراچی کی اپیل: “سانحے کو سیاسی نہ بنایا جائے”
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں گی مگر اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سانحے کے فوراً بعد الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے، جبکہ ایسے موقع پر سیاست سے بالاتر ہوکر مسئلے کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
میئر نے سوال اٹھایا کہ شہر کے مصروف مقام پر کھلا مین ہول کتنے عرصے سے موجود تھا اور کون ذمہ دار ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اگر کوئی سرکاری غفلت سامنے آئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ یونین کونسل کے چیئرمین سے بھی پوچھا جائے گا کہ آیا کھلے مین ہول کی نشاندہی کی گئی تھی یا نہیں۔
بار بار ہونے والے واقعات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کھلے مین ہولز اور ناقص سیوریج سسٹم کے باعث ایسے واقعات پاکستان میں، بالخصوص کراچی میں، بارہا پیش آتے رہے ہیں۔
٭ ستمبر میں عثمان آباد میں صفائی کے دوران تین سیوریج ورکرز مین ہول میں گر کر جاں بحق ہوئے۔
٭ مئی میں چھ سالہ بچہ کھلے مین ہول میں گر کر ڈوب گیا، جس کے بعد شدید احتجاج ہوا اور پولیس نے مقدمہ درج کیا۔
٭ اپریل میں لیاقت آباد سے ایک کمسن لڑکی کی لاش نالے سے برآمد ہوئی تھی۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن اور ابتر سیوریج سسٹم شہریوں کے لیے جان لیوا خطرہ بن چکے ہیں، جنہیں دور کرنا انتظامیہ کی فوری ذمہ داری ہے۔