لارکانہ کے بیشتر اسپتالوں کا فضلہ کباڑیوں کے پاس فروخت ہونے لگا

لاڑکانہ: ضلع بھر کے بیشتر سرکاری و نجی اسپتالوں کا فضلہ یا تو کباڑیوں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے یا نالیوں، نہروں اور کچرے کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر اسپتال اپنا طبی فضلہ انسینیریٹرز (Incinerators) کے ذریعے تلف نہیں کر رہے۔

ذرائع کے مطابق شہر میں موجود چار میں سے صرف دو انسینیریٹرز فعال ہیں — ایک چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال میں جبکہ دوسرا شیخ زید اسپتال برائے خواتین میں نصب ہے۔ باقی دو مشینیں جو 2018ء میں چانڈکا اسپتال کو فراہم کی گئیں تھیں، تاحال بند پڑی ہیں۔ ایل پی جی پر چلنے والی یہ مشینیں فی سیشن 60 کلو گرام فضلہ تلف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

چانڈکا اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نیاز دہار نے تصدیق کی کہ دو مشینیں کام کر رہی ہیں جبکہ باقی دو، جن میں سے ایک 2007ء اور دوسری 2021ء میں نصب ہوئی تھی، معمولی مرمت کی منتظر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فلٹر سسٹم کمزور ہونے کے باعث دھواں قابو میں نہیں رہتا، تاہم انفیکشن پریوینشن اینڈ کنٹرول (IPC) کمیٹی کی کوششوں سے ان کی اپ گریڈیشن اور مرمت کا کام آخری مراحل میں ہے۔

ذرائع کے مطابق شیخ زید اسپتال کی مشین 50 کلو گرام فضلہ جلا سکتی ہے، تاہم وہاں ایک انسینیریٹر رمپ کے نیچے اور دوسرا چانڈکا اسپتال کے میڈیکل وارڈ کے پیچھے غیر فعال حالت میں رکھا گیا ہے۔ اسپتال کے عملے نے انکشاف کیا کہ ان مشینوں کے اہم پرزے چوری ہو رہے ہیں، اور اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ مکمل طور پر ناکارہ ہو جائیں گی۔

2018ء میں ان مشینوں کے لیے خصوصی کمرہ اور بجلی کا کنکشن درکار تھا، مگر اب وہ کمرہ محکمہ صحت کے غذائیت پروگرام کو الاٹ کر دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ اجلاس میں ایم ایس چانڈکا نے تجویز دی کہ بند مشینوں کو اسپتال کے مرکزی بلاک میں منتقل کیا جائے تاکہ ماحول دوست طریقے سے فضلہ جلایا جا سکے۔

انفیکشن پریوینشن اینڈ کنٹرول سیکشن کی سربراہ ڈاکٹر مروہ قاضی نے بتایا کہ نجی اسپتالوں، بلڈ بینکس اور لیبارٹریز سے تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023ء میں جب انہوں نے چارج سنبھالا تو 45 مراکز رجسٹرڈ تھے، مگر صرف چار سے پانچ مراکز باقاعدگی سے فضلہ بھجواتے تھے۔ اب 92 مراکز رجسٹرڈ ہیں مگر صرف 30 سے 35 اپنا فضلہ باقاعدہ بھیجتے ہیں، جبکہ باقی بالکل نہیں۔

ڈاکٹر قاضی نے بتایا کہ دو فعال انسینیریٹرز فی سیشن 60 اور 50 کلو گرام فضلہ جلا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایس آئی یو ٹی ڈے کیئر ڈائیلیسز سینٹر سے ہر دوسرے دن 60 کلو گرام اور ایس آئی سی وی ڈی و ٹراما سینٹر سے روزانہ 80 کلو گرام فضلہ جلانے کے لیے وصول کیا جاتا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ کچھ خاکروب اسپتال کے اندر اور باہر خفیہ مقامات پر طبی فضلہ چھپا کر رکھتے ہیں اور بعد میں اسے کباڑیوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں، جہاں سے استعمال شدہ سرنجیں، ڈرپ سیٹس اور دیگر سامان دوبارہ مارکیٹ میں پہنچ کر ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور دیگر مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

اسپتال انتظامیہ کے مطابق سندھ حکومت غیر فعال انسینیریٹرز کو فعال کرنے اور لارکانہ میں طبی فضلے کے مؤثر انتظام کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ جلد ہی انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تعاون سے فضلے کی محفوظ منتقلی کے لیے علیحدہ گاڑی فراہم کی جائے گی۔

ڈاکٹر مروہ قاضی نے تجویز دی کہ شہر میں مرکزی اسٹیریلائزیشن یونٹ قائم کیا جائے اور اسپتال فضلے سے متعلق ہیلپ لائن بنائی جائے، ساتھ ہی نجی مراکز، لیبارٹریز اور بلڈ بینکس پر اچانک کریک ڈاؤن کیا جائے تاکہ غیر قانونی فروخت روکی جا سکے۔

ذرائع کے مطابق اسپتال انتظامیہ نے صوبائی محکمہ صحت کو مرکزی اسٹیریلائزیشن یونٹ کے قیام کی تجویز بھی دے دی ہے، جبکہ آئی پی سی کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ اسپتالوں میں کام کرنے والے خاکروبوں اور کباڑیوں پر سخت نگرانی رکھی جائے تاکہ مستقبل میں عوامی صحت کو لاحق خطرات کا خاتمہ ممکن ہو۔

متعلقہ خبریں