غیر سرکاری اعداد و شمار میں ہلاکتوں کی تشویشناک تعداد، ماہرین تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہیں
حیدرآباد: سندھ میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز نے محکمہ صحت کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سرکاری سطح پر دیر سے ردعمل دینے کے بعد محکمہ صحت نے اب کراچی اور حیدرآباد میں مچھر سے پھیلنے والی اس وبا کے تدارک کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں، تاہم اس سے قبل صرف ایک ماہ میں 30 کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یکم اکتوبر سے 2 نومبر تک صرف حیدرآباد میں 26 اور کراچی میں 4 اموات رپورٹ ہوئیں، جبکہ محکمہ صحت سندھ نے اب تک صرف 6 اموات کی تصدیق کی ہے۔ حیدرآباد میں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد لیاقت یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹروں اور ایک استاد کے خلاف عدالتی حکم پر فوجداری کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، سندھ کے چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ نے بڑھتے ہوئے کیسز پر متعدد اجلاس منعقد کیے اور متعلقہ محکموں کو ’’مربوط حکمتِ عملی‘‘ اپنانے کی ہدایت کی۔ فومیگیشن مہم میں بھی کچھ تیزی دیکھی گئی ہے، مگر ڈینگی کے درست اعداد و شمار تاحال منظر عام پر نہیں لائے گئے۔
محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے ضلعی صحت افسر (ڈی ایچ او) نے اپنی رپورٹ میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی ڈائیگناسٹک اینڈ ریسرچ لیبارٹری (DRL) کے اعداد و شمار شامل نہیں کیے، حالانکہ یہی ادارہ کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ ٹیسٹ کرتا رہا ہے۔
ڈی آر ایل کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ڈینگی کے 2,612 مثبت کیسز جبکہ 2024 میں 4,283 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2025 میں صرف 14 اکتوبر تک لطیف آباد میں 2,013 اور قاسم آباد میں 1,688 کیسز سامنے آئے، مگر کسی ادارے نے اب تک ان علاقوں میں تسلسل کے ساتھ بڑھتے کیسز کی وجوہات پر تحقیق نہیں کی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب تک درست اعداد و شمار سامنے نہیں آئیں گے، مؤثر حکمت عملی ممکن نہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سندھ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر حلیم تھیبو نے کہا کہ ’’یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ اس سال وائرس زیادہ مہلک ہے، ممکن ہے اس میں جینیاتی تبدیلی (mutation) آئی ہو۔‘‘
ادھر ذرائع کے مطابق ڈینگی ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی تاحال معطل ہے، جو ٹینڈر کے قانونی تنازع کے باعث رکی ہوئی ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری پی ایم اینڈ آئی سیل ابراہیم میمن نے بتایا کہ ’’عدالتی حکم کے باعث تاخیر ہوئی تھی، تاہم اب عمل مکمل ہو چکا ہے اور اگلے ہفتے کٹس فراہم کیے جانے کی توقع ہے۔‘‘
صوبائی محکمہ صحت کی کارکردگی پر عدلیہ نے بھی سوال اٹھایا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں زیر سماعت مقدمات میں صحت سیکریٹری ریحان اقبال بلوچ کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔
حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر نے بھی حالیہ اجلاس میں نشاندہی کی کہ لیاقت یونیورسٹی اور بھٹائی اسپتال لطیف آباد میں سہولیات ناکافی ہیں، فومیگیشن مہم سست روی کا شکار ہے اور ٹیسٹنگ کٹس کی کمی سے کئی مریض بغیر علاج واپس جا رہے ہیں۔
ڈاکٹرز اور ماہرین کے مطابق ڈینگی کے خلاف حکومتی اقدامات اس وقت تک غیر مؤثر رہیں گے جب تک درست اعداد و شمار، جامع فومیگیشن اور سائنسی تحقیق کو یکجا نہ کیا جائے۔