بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم فوری کی جائے: پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد

لاہور: پنجاب اسمبلی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں کو آئینی، انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار بنانے کے لیے 27ویں آئینی ترمیم ضروری ہے تو یہ ترمیم فوری طور پر کی جائے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی نظام کے استحکام اور تسلسل کے لیے آئین میں واضح اور ناقابلِ تنسیخ ضمانت شامل کی جائے، تاکہ مقامی حکومتوں کو کسی سیاسی فیصلے کے تحت ختم یا معطل نہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے بارے میں اب کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جمہوریت کی اصل بنیاد اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہے۔ جب عوام کو جمہوریت کے ثمرات مقامی سطح پر محسوس نہیں ہوں گے تو ان کا جمہوری نظام پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرح بلدیاتی اداروں کی مدت بھی آئینی طور پر متعین ہونی چاہیے تاکہ کوئی حکومت یا سیاسی جماعت اپنی سہولت کے مطابق مقامی حکومتوں کو تحلیل نہ کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں تجویز دی گئی ہے کہ آئین میں ایک نیا باب شامل کیا جائے جس کے تحت بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں لازمی کرائے جائیں، کسی حکومت کو بلدیاتی ادارے قبل از وقت تحلیل کرنے کا اختیار نہ ہو اور بلدیاتی اداروں کو آئینی، انتظامی اور مالیاتی خودمختاری دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 140-اے نامکمل ہے کیونکہ اگرچہ وہ صوبوں کو مقامی حکومتوں کے قیام کا پابند کرتا ہے مگر اس میں ان کی خودمختاری اور تسلسل کی ضمانت نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہو ہی نہ، کیونکہ جب اختیارات عوامی نمائندوں تک محدود رہیں گے اور شہریوں کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جائے گا تو نظام کمزور ہوتا جائے گا۔ وفاقی پارلیمان کو چاہیے کہ وہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کے لیے جامع ترامیم پر غور کرے۔ پنجاب اسمبلی نے اس سلسلے میں اپنی سفارشات وفاق کو ارسال کر دی ہیں اور توقع ہے کہ ان تجاویز کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ اسپیکر نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ کاکس فعال کردار ادا کر رہا ہے جس میں 80 ارکان شامل ہیں جن میں سے 35 اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ خوش آئند امر ہے کہ تمام جماعتیں اختیارات کی منتقلی کے اصول پر متفق ہیں، کیونکہ مضبوط جمہوریت اسی وقت ممکن ہے جب عوامی نمائندگی نچلی سطح تک پہنچے۔

ملک احمد خان نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومت نے اپنے اقتدار کے آغاز پر بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے اور نیا قانون بنانے میں تین سال لگا دیے، جس کے باعث صوبے کے بیشتر شہروں اور قصبوں میں شہری خدمات بری طرح متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں میں خود رہتا ہوں وہاں آج بھی ڈرینیج اور صفائی کا مسئلہ حل نہیں ہوا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جب مقامی حکومتیں ختم کر دی جاتی ہیں تو عوامی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان کے قیام میں مقامی حکومتوں کا کردار بنیادی ہے۔ “میں نے فیض آباد اور مری روڈ پر فساد کے دوران ریاستی اداروں پر حملے دیکھے، بلوائیوں کو پولیس پر سیدھی فائرنگ کرتے دیکھا — یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ جب ریاستی عملداری کمزور ہوتی ہے تو لاقانونیت بڑھتی ہے، اور اس کا حل مقامی سطح پر نظم و نسق کے مضبوط ڈھانچے سے ہی ممکن ہے۔”

مولانا فضل الرحمان کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا کہ وہ انہیں ایک بڑے سیاستدان کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تاہم اختلافِ رائے جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 27ویں آئینی ترمیم بلدیاتی حکومتوں کو آئینی، سیاسی اور مالیاتی تحفظ فراہم کر سکتی ہے تو اس پر مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندگی کا دائرہ صرف اسمبلیوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہر شہری کو اپنی گلی، محلے اور شہر کے فیصلوں میں شریک ہونا چاہیے، کیونکہ یہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔

متعلقہ خبریں