خیبرپختونخوا میں پولیو مہم کے دوران والدین کی جانب سے انکار کے کیسز میں کمی
ضلعی انتظامیہ اور فیلڈ ورکرز کی کوششوں سے والدین کا اعتماد بحال، پولیو کے خاتمے کی جانب مثبت پیش رفت
پشاور: خیبرپختونخوا میں حالیہ پولیو مہم کے دوران والدین کی جانب سے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کے کیسز میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ محکمہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ماضی کی نسبت اس بار والدین کا تعاون بہتر رہا، جس سے مہم کے نتائج حوصلہ افزا قرار دیے جا رہے ہیں۔
ایمرجنسی آپریشن سینٹر (EOC) خیبرپختونخوا کی جانب سے مئی میں منعقد کی گئی پانچ روزہ مہم کے دوران 17 ہزار 136 بچوں کو والدین کے انکار کی وجہ سے پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے تھے۔ والدین کی بڑی تعداد کا خیال تھا کہ پولیو کے قطرے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں یا مغربی ممالک کی ایک "سازش” ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کی آبادی میں کمی لانا ہے۔
علمائے کرام اور معروف مذہبی جامعات نے اس تاثر کو سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پولیو ویکسین اسلامی اصولوں کے مطابق جائز اور محفوظ ہے، جب کہ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قطرے دنیا بھر میں معذوری کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
تاہم، گزشتہ ہفتے مکمل ہونے والی تازہ ترین مہم کے اعدادوشمار کے مطابق، انکاری کیسز کی تعداد گھٹ کر 14 ہزار 712 رہ گئی، جس کا کریڈٹ فرنٹ لائن ویکسینیٹرز، ضلعی انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کی مشترکہ محنت کو دیا جا رہا ہے۔
مئی میں 64 ہزار 328 بچے گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے قطرے نہیں پی سکے تھے، جب کہ تازہ مہم میں یہ تعداد معمولی اضافے کے ساتھ برقرار رہی۔
پشاور بدستور انکار کرنے والے والدین کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے، جہاں ستمبر میں 5 ہزار 977 بچوں کو قطرے نہیں پلائے جا سکے، جو مئی میں 6 ہزار 812 تھے۔ دوسرے نمبر پر لکی مروت کا ضلع ہے، جہاں انکار کے کیسز کی تعداد 2 ہزار 128 رہی۔
خیبرپختونخوا اس سال پولیو کیسز کے لحاظ سے بدستور ملک میں سرفہرست ہے، جہاں 18 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ ملک بھر میں مجموعی تعداد 27 ہے۔ سندھ میں سات، پنجاب اور گلگت بلتستان میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع، خصوصاً لکی مروت، ٹانک، شمالی وزیرستان اور بنوں پولیو سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں، جہاں سیکیورٹی چیلنجز اور سماجی مزاحمت کے باعث ویکسینیشن ٹیموں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
ای او سی حکام کے مطابق چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ، بطور چیئرمین ٹاسک فورس برائے پولیو، ہر مہم سے قبل ضلعی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے ہیں تاکہ پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں تک قطرے یقینی طور پر پہنچ سکیں۔
پولیو مہم کے دوران اس بار کسی پرتشدد واقعے کی اطلاع نہیں ملی، تاہم نامکمل ویکسینیشن اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکام کے مطابق مہم کے دوران 99 فیصد سے زائد بچوں تک رسائی حاصل کی گئی، لیکن ایک فیصد بچے اب بھی غیر ویکسینیٹڈ رہے۔
ایک عہدیدار نے کہا:
“پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تین سال تک مسلسل ہر مہم میں تمام بچوں کو قطرے پلائے جائیں۔ اگر چند بچے بھی رہ جائیں تو وائرس دوبارہ پھیل سکتا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ کچھ مخصوص لوگ برسوں سے ویکسینیشن کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس رویے نے انسداد پولیو کے قومی مقصد کو متاثر کیا ہے۔
پولیو ورکرز اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں اس مہم کے دوران ماضی میں نشانہ بنی ہیں، جس کے باوجود انسداد پولیو ٹیمیں عزم کے ساتھ اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ پاکستان کو پولیو فری ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔