سی سی ڈی کے پولیس مقابلے ماورائے عدالت قتل قرار، سپریم کورٹ بار صدر کا سخت ردعمل

اسلام آباد : سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالرؤف عطا نے کرائمز کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس مقابلوں کے نام پر ملزمان کو ہلاک کرنا دراصل ماورائے عدالت قتل ہے، جو آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے انصاف کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ پولیس کو کسی شہری کی جان لینے کا حق حاصل نہیں، اور اگر کوئی شخص جرم میں ملوث ہے تو اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پولیس مقابلوں کے نام پر لوگوں کو ہلاک کرنا نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عدالتی عمل کو بھی غیر مؤثر بنانے کے مترادف ہے۔

میاں عبدالرؤف عطا نے پنجاب کی اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ فوجداری مقدمات کے فوری فیصلے کے لیے ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت سات سے پندرہ دن کے اندر اندر ٹرائل مکمل کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالتی عمل تیز اور مؤثر ہوگا تو پولیس کے پاس ماورائے عدالت اقدامات کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی سی ڈی کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ان سے پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا:

"ہم چاہتے ہیں کہ قانون کے مطابق ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل ملے اور کسی کو بھی ریاستی اداروں کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر اپنی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑے،”

اس موقع پر صدر سپریم کورٹ بار نے سپریم کورٹ بلڈنگ میں وکلا کے داخلے پر عائد حالیہ پابندیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کی عدالتیں وکلا اور شہریوں کے لیے کھلی رہتی ہیں، لیکن پاکستان میں وکلا کے داخلے پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جو کہ افسوسناک ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کا مرکزی دروازہ وکلا کے ساتھ عام شہریوں کے لیے بھی کھولا جائے تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال رہے۔

متعلقہ خبریں