لاہور میں اغوا برائے تاوان کا سنگین اسکینڈل — سی سی ڈی کے اہلکار خود ملزمان نکلے
لاہور: صوبائی دارالحکومت میں پولیس کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے دو اہلکاروں پر تاجر کو پچاس ملین روپے تاوان کے لیے اغوا کرنے کا سنگین الزام سامنے آیا ہے، جس نے پولیس کی ساکھ پر ایک بار پھر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسپکٹر جاوید اقبال، جو سی سی ڈی کوٹوالی میں تعینات تھا، اور کانسٹیبل توسیف، جو سی سی ڈی ہیڈکوارٹرز میں ڈیوٹی دے رہا تھا، دونوں کے خلاف تاجر ولید حسین کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ولید حسین کا تعلق کہنہ کے علاقے گجومتہ سے بتایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق انسپکٹر جاوید نے کانسٹیبل طوسیف کے ذریعے ولید حسین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور بعد ازاں سادہ کپڑوں میں تاجر کے گھر داخل ہو کر اسے زبردستی گاڑی میں بٹھا لیا۔ اغواکاروں نے شہر کی مختلف سڑکوں پر گاڑی گھماتے ہوئے مقام بدلتے رہے تاکہ ٹریس نہ ہو سکیں۔
اغوا کے دوران ملزمان نے ولید حسین کے دو موبائل فون، ایک لیپ ٹاپ، نقد رقم اور گھر کا DVR سسٹم بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ بعدازاں انہوں نے ولید کے والدین سے رابطہ کیا اور پچاس ملین روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کے مطابق جب ولید کے والدین نے بتایا کہ وہ اتنی بڑی رقم فوراً ادا نہیں کر سکتے، تو انسپکٹر جاوید طیش میں آ گیا اور قتل کی دھمکی دے ڈالی۔ خوفزدہ والدین نے عزیز و اقارب سے قرض مانگنا شروع کیا اور زیورات بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی طرح بیٹے کی جان بچا سکیں۔
مذاکرات کے دوران تاوان کی رقم پچاس ملین سے کم ہو کر چار ملین روپے پر طے ہوئی۔ ملزمان نے ولید کے والد کو پہلے لاہور ہائی کورٹ کے قریب اور پھر شمع اسٹاپ، اچھرہ پر رقم لانے کا کہا۔ والد نے ہدایت کے مطابق چار ملین روپے گاڑی میں بیٹھے ملزمان کے حوالے کیے، جنہوں نے وعدہ کیا کہ ولید کو دو گھنٹے میں چھوڑ دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد ملزمان نے واقعی ولید کو ایک سڑک پر چھوڑ دیا۔
واقعے نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایڈیشنل آئی جی سی سی ڈی سہیل ظفر چٹھہ نے فوری اجلاس طلب کیا اور واقعے کو محکمے کے لیے “ٹیسٹ کیس” قرار دیتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔ بعد ازاں پولیس نے دونوں اہلکاروں کو گرفتار کر لیا۔
تاہم یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے قائم ادارہ خود جرائم میں ملوث پایا جا رہا ہے۔سی سی ڈی، جو شہریوں کے تحفظ کی علامت ہونی چاہیے تھی، اس کے اہلکاروں کی ایسی کارروائیاں محکمہ پولیس کے اندر بدعنوانی، اخلاقی زوال اور نظامِ احتساب کی کمزوری کی عکاس ہیں۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کے وہ اہلکار جو عوام کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، خود اغوا اور تاوان جیسے جرائم میں ملوث پائے جائیں، تو پھر عوام بھلا کس پر اعتماد کریں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمے کی اعلیٰ قیادت صرف گرفتاری پر اکتفا کرتی ہے یا واقعی ایسے عناصر کے خلاف مثالی کارروائی عمل میں لاتی ہے۔