گجرات کا سیوریج بحران: 40 سالہ ناکامی، حالیہ سیلاب نے پول کھول دیا

گجرات: گزشتہ چار دہائیوں سے گجرات کے عوام کو ایک ہی وعدہ سننے کو مل رہا ہے: "سیوریج کا نظام ٹھیک ہو جائے گا، فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں، جلد ریلیف ملے گا۔” لیکن حقیقت یہ ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرامز، غیر ملکی فنڈڈ اسکیموں اور خصوصی گرانٹس کے ذریعے اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود آج بھی شہر کا سیوریج نظام ناکارہ ہے۔

انیس سو اسی کی دہائی سے اب تک ہر حکومت—چاہے فوجی اقتدار ہو یا جمہوری—سیوریج منصوبوں کا اعلان کرتی رہی۔ اسکیمیں بنتی رہیں، ٹینڈرز جاری ہوتے رہے، ٹھیکے دار لگتے رہے، اور سیاست دان فیتے کاٹتے رہے۔ اندازوں کے مطابق صرف گجرات میں سیوریج اور ڈرینیج کے نام پر پچیس سے تیس ارب روپے "ہضم” ہو چکے ہیں۔ لیکن بارش ہوتے ہی شہر کی سڑکیں آج بھی جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں۔

اس سال کی حالیہ طوفانی بارشوں اور دریائے چناب کے سیلابی ریلوں نے گجرات کو مزید تباہی سے دوچار کیا۔ برساتی پانی اور دریائی بہاؤ نے پورے شہر کا سیوریج سسٹم مکمل طور پر چوک کر دیا، نالے ابل پڑے اور کئی گھنٹوں تک شہری علاقوں میں پانی کھڑا رہا۔ درجنوں محلوں میں گھروں کے اندر گندا پانی داخل ہوگیا، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ صرف پیسہ ضائع ہونے کا معاملہ نہیں بلکہ عوام کی صحت بھی داؤ پر ہے۔ عزیز بھٹی شہید اسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق مون سون میں اسہال، ٹائیفائیڈ، جلدی امراض اور مچھروں سے پھیلنے والی بیماریاں تیزی سے بڑھ جاتی ہیں۔ نالیاں کچرے اور پلاسٹک سے بھری پڑی ہیں جبکہ کئی علاقوں میں گندہ پانی پینے کے پانی کی پائپ لائنوں میں داخل ہو جاتا ہے۔

چوہدری خاندان کی سیاست میں سیوریج ہمیشہ ایک نعرہ رہا ہے۔ "میگا سیوریج اسکیم گجرات” گزشتہ پچیس برسوں میں کم از کم پانچ بار مختلف تخمینوں کے ساتھ اعلان کی گئی—کبھی پانچ ارب روپے کے صوبائی منصوبے کے طور پر، کبھی ساڑھے تین ارب روپے کے اے ڈی بی فنڈڈ پراجیکٹ کے طور پر۔ افسران جزوی کام مکمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عوام کہتے ہیں کہ نظام آج بھی غیر فعال ہے۔ ایک ریٹائرڈ استاد شبیر احمد کا کہنا ہے: "یہ کھدائی کرتے ہیں، بھر دیتے ہیں، پیسہ غائب۔ وہی ڈرامہ، وہی کردار۔”

انتظامیہ فنڈز کی کمی اور ڈیزائن کی خامیوں کا رونا روتی ہے، سیاست دان بیوروکریسی کو الزام دیتے ہیں، بیوروکریٹ ٹھیکے داروں پر انگلی اٹھاتے ہیں اور ٹھیکے دار ادائیگی میں تاخیر کی شکایت کرتے ہیں۔ احتسابی ادارے کبھی کبھار انکوائریاں شروع کرتے ہیں مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔

ریکارڈ کے مطابق 2002ء سے 2007ء کے دوران صرف پنجاب کے خصوصی ترقیاتی پیکج کے تحت سات ارب روپے خرچ کیے گئے۔ 2008ء سے 2013ء میں مزید چھ ارب روپے مختص ہوئے۔ 2013ء کے بعد سے اب تک حکومتیں بارہ ارب روپے سے زیادہ "جدید سیوریج اور ڈرینیج” پر خرچ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ لیکن عوام کے مطابق آج کا نظام 1980ء کی دہائی سے بھی بدتر ہے۔

شہری منصوبہ ساز اسے "ایک کھلا اسکینڈل” قرار دیتے ہیں۔ پائپ یا تو نظر ہی نہیں آتے، یا ٹوٹے پھوٹے ہیں، یا پہلے دن سے بند پڑے ہیں۔ ناقدین کے مطابق سیاست دانوں نے ان فنڈز کو ووٹ اور پیسہ بنانے کے لیے استعمال کیا، جبکہ افسران اور ٹھیکے داروں نے اپنا حصہ لے لیا۔

حتیٰ کہ اعلیٰ افسران بھی ناکامی تسلیم کرتے ہیں۔ ایک سینئر صحافی نے کہا:

 "اگر 1980ء سے اب تک گجرات کے سیوریج فنڈز کا اصل آڈٹ ہو جائے تو آدھے سیاست دان اور انجینئر جیل میں ہوں گے۔”

شہری اور سول سوسائٹی اب اس معاملے کو "پنجاب کا سیوریج اسکینڈل” قرار دے رہے ہیں اور عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک سال بہ سال، منصوبہ بہ منصوبہ فرانزک آڈٹ نہیں کیا جاتا، گجرات ہمیشہ اس دائرے میں پھنسا رہے گا—فنڈز جاری، فنڈز خرچ، مگر عوام کو کچھ نہ ملے۔

متعلقہ خبریں