پنجاب میں صحافیوں پر مقدمات، سنسرشپ اور معاشی استحصال میں اضافہ: رپورٹ

لاہور: شمالی اور وسطی پنجاب میں صحافی بیک وقت کئی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں — قانونی دباؤ، سنسرشپ، ہراسانی اور معاشی استحصال۔ یہ انکشاف منگل کو جاری ہونے والی فریڈم نیٹ ورک کی دو تازہ تحقیقی رپورٹس میں کیا گیا۔

رپورٹوں کے مطابق، حکومتوں اور اداروں کی جانب سے معاشی دباؤ ایک “نرم سنسرشپ” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، جہاں سیاسی بنیادوں پر اشتہارات کی تقسیم، ضلعی نمائندوں کو معمولی یا بغیر معاوضے کے کام پر مجبور کرنا، رپورٹس کی اشاعت روک دینا، اور بائی لائنز حذف کرنا عام رویہ بن چکا ہے۔

شائع ہونے والی دونوں رپورٹس کے عنوانات ہیں:
“شمالی پنجاب میں صحافت: اظہارِ رائے کی آزادی، معلومات تک رسائی اور صحافیوں کے تحفظ کی صورتحال”
اور
“وسطی پنجاب میں صحافت: اظہارِ رائے کی آزادی، معلومات تک رسائی اور صحافیوں کے تحفظ کی صورتحال”۔

یہ رپورٹس انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (IMS) کے تعاون سے تیار کی گئیں اور لاہور میں ایک تقریب کے دوران جاری کی گئیں، جہاں مقررین نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے وعدہ کردہ قانونی فریم ورک کو عملی شکل دے۔ اس موقع پر فیڈرل کمیشن فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز کے چیئرمین کمال الدین ٹیپو مہمانِ خصوصی تھے۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ “ان رپورٹوں کے نتائج ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں — چاہے وہ حکومتِ پنجاب ہو، صحافی تنظیمیں، میڈیا مالکان یا سیاسی جماعتیں۔”

رپورٹوں کے مطابق شمالی پنجاب میں 2025 کے دوران پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) کے تحت 31 مقدمات درج کیے گئے، جبکہ آٹھ مزید جھوٹے مقدمات دیگر قوانین کے تحت قائم ہوئے۔ اس کے علاوہ دو جسمانی حملوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
وسطی پنجاب میں کم از کم 32 پی ای سی اے مقدمات رپورٹ ہوئے، جن میں کئی صحافی پرانی سوشل میڈیا پوسٹس پر بھی قانونی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

رپورٹوں میں بتایا گیا کہ ضلعی سطح پر پرنٹ میڈیا تقریباً ختم ہو چکا ہے جبکہ کم اجرت والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جنہوں نے صحافیوں کو مزید غیر محفوظ اور دباؤ کا شکار بنا دیا ہے۔ ان پر سرکاری افسران، سکیورٹی اداروں، مقامی بااثر افراد اور جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے دباؤ بڑھ گیا ہے۔

خواتین صحافیوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اب بھی پریس کلبوں میں عدم شمولیت، ہراسانی، اور ’ساف بیٹس‘ تک محدود کیے جانے جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں، اگرچہ چند بڑے شہروں میں معمولی بہتری دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں 2025 کی پی ای سی اے ترمیمات کو “خود سنسرشپ کی تلوار” قرار دیا گیا ہے، کیونکہ معمولی آن لائن پوسٹس پر بھی پولیس مقدمات درج کر لیتی ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹس نے حکومت، میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی کے لیے متعدد سفارشات بھی پیش کیں تاکہ اظہارِ رائے کی آزادی، صحافیوں کے تحفظ اور پیشہ ورانہ خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں