ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ادارہ جاتی ناکامی کی عکاس: شہریوں کا موقف
کراچی: حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر شہر کے تباہ حال روڈ نیٹ ورک کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ شہر کی مرکزی اور ثانوی شاہراہوں پر بڑے بڑے گڑھے بن گئے ہیں، جس کے باعث گاڑیوں کا پھنس جانا اور موٹرسائیکل سواروں کا پھسلنا معمول بن گیا ہے۔ شہریوں نے اس صورتحال کو روزمرہ مشکلات کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی ناکامی قرار دیا ہے۔
شہر کا سروے ظاہر کرتا ہے کہ حال ہی میں تعمیر کی گئی کئی شاہراہیں بھی چند گھنٹوں کی بارش برداشت نہ کرسکیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔ فی الحال کوئی بڑی شاہراہ ایسی نہیں بچی جو نقصان سے محفوظ ہو۔
ضلع وسطی میں شاہراہِ شیر شاہ سوری، یو پی موڑ سے فور کے چورنگی اور سرجانی تک، جبکہ پاور ہاؤس اور فور کے چورنگی کے اردگرد کی سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ چند سیکنڈ کا سفر اب کئی منٹوں میں طے ہوتا ہے۔ شفیق موڑ کے قریب سڑک بیٹھ جانے سے روزانہ ٹریفک جام رہتا ہے۔
اسی طرح قلندریہ چورنگی، اندھا موڑ، لیاقت آباد، ناظم آباد، اور طاہر ولا کے اطراف کی سڑکیں بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شاہراہِ پاکستان پر عائشہ منزل کے قریب ایک بڑا گڑھا موجود ہے جسے نمایاں کرنے کے لیے درمیان میں صوفہ رکھا گیا ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔ ڈاکخانہ چورنگی کے قریب شاہراہ کئی انچ بیٹھ چکی ہے اور روزانہ گھنٹوں کا ٹریفک جام معمول ہے۔
ضلع شرقی میں یونیورسٹی روڈ، گلستانِ جوہر کا منور چورنگی روڈ اور فلسطین انڈر پاس کے قریب سڑکیں بارش کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ صرف ایک سال قبل تعمیر ہونے والی یہ سڑکیں عوام کے لیے اذیت بن گئی ہیں۔
ضلع کورنگی کے داؤد چورنگی اور لینڈھی فلائی اوور کے اطراف سڑکیں پانی اور کیچڑ سے بھر کر تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ اسی طرح ضلع مغرب میں منگھوپیر روڈ، میٹروول روڈ، اور اورنگی ٹاؤن کی سڑکیں بھی ناقابلِ استعمال ہو گئی ہیں۔
ضلع جنوبی میں ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور شارع فیصل پر بڑے بڑے گڑھے بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد روڈ پر برنس گارڈن کے قریب چھ فٹ گہرے گڑھے پڑے ہیں جو شہریوں کے لیے جان لیوا خطرہ بن چکے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ بارشوں کے بعد یہ صورتحال اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اداروں نے سڑکوں کی مرمت یا طویل المدتی منصوبہ بندی کے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ ایک شہری نے کہا:
“یہ سب ناقص منصوبہبندی اور بدانتظامی کا نتیجہ ہے، جس کی قیمت روزانہ عوام اپنی جان و مال کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔”