خیبرپختونخوا حکومت کا 1500 پرائمری اسکولز نجی تنظیموں کے حوالے کرنے کا فیصلہ

حکام کا کہنا ہے کہ نجی تنظیموں کے ذریعے اسکولوں کا انتظام بہتر بنا کر اس بوجھ کو مؤثر طریقے سے کم کیا جا سکتا ہے

پشاور: خیبرپختونخوا کے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم نے صوبے میں کم داخلوں اور ناقص تعلیمی کارکردگی کے باعث 1500 سرکاری پرائمری اسکولز کو نجی تنظیموں کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسکولوں میں داخلہ بڑھانا اور تعلیمی معیار بہتر بنانا ہے۔

محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق یہ اسکولز بالخصوص وہ ادارے ہیں جہاں طلبہ کی تعداد 40 یا اس سے کم ہے۔ ان اسکولز کو غیر منافع بخش تعلیمی اداروں اور تنظیموں کے سپرد کیا جائے گا تاکہ وہ بہتر انتظامات کے ساتھ انہیں چلا سکیں۔ یہ اقدام وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں اس وقت 4147 سرکاری پرائمری اسکول ایسے ہیں جہاں طلبہ کی تعداد 40 سے کم ہے۔ ان میں 2313 لڑکیوں اور 1834 لڑکوں کے اسکول شامل ہیں۔ ان میں سے 1500 اسکولز کو پہلے مرحلے میں منتخب کر کے نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا، جن میں 500 ضم شدہ اضلاع اور 1000 صوبے کے دیگر اضلاع میں واقع ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق ہزارہ ڈویژن میں 1443، بنوں ڈویژن میں 679، کوہاٹ ڈویژن میں 574، ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں 509، ملاکنڈ ڈویژن میں 475، پشاور ڈویژن میں 274 اور مردان ڈویژن میں 193 ایسے اسکول ہیں جہاں طلبہ کی تعداد کم ہے۔

اس مقصد کے لیے ہر ضلع میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں متعلقہ ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹیاں ان اسکولوں کا انتخاب کریں گی جو سب سے زیادہ موزوں ہوں۔

محکمہ تعلیم کے سیکرٹری محمد خالد کے مطابق، "حکومت اسکول کی عمارت، طلبہ کی ٹیوشن فیس، مفت کتب اور چوکیدار فراہم کرے گی۔ اس اقدام سے اساتذہ کی ملازمتیں متاثر نہیں ہوں گی بلکہ انہیں دیگر سرکاری اسکولوں میں تعینات کر دیا جائے گا۔”

سرکاری دستاویزات کے مطابق نجی تنظیموں کے لیے کارکردگی کے اشاریے (Key Performance Indicators) وضع کیے جائیں گے جن کے تحت انہیں ایک سال کے اندر کم از کم 180 طلبہ کا اندراج لازمی کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کارکردگی کا باقاعدہ جائزہ اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے جانچ پڑتال کا نظام بھی بنایا جائے گا۔

اس وقت صوبے کے 34,784 سرکاری اسکولوں میں 59 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں جن میں 26.3 لاکھ بچیاں اور 33.1 لاکھ بچے شامل ہیں۔ تاہم 49 لاکھ بچے تاحال اسکولوں سے باہر ہیں۔

ماہرین تعلیم کے مطابق، فی الحال ایک سرکاری اسکول کے ہر طالب علم پر اوسط ماہانہ لاگت 4155 روپے ہے جبکہ پرائمری سطح پر یہ اخراجات 3517 روپے بنتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ نجی تنظیموں کے ذریعے اسکولوں کا انتظام بہتر بنا کر اس بوجھ کو مؤثر طریقے سے کم کیا جا سکتا ہے۔

محکمہ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ ایک پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU) قائم کیا جائے گا جو نجی تنظیموں کے حوالے کیے جانے والے اسکولوں کے تمام معاملات کی نگرانی کرے گا۔

متعلقہ خبریں