خیبر پختونخوا کا وفاق سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنےکے لئے ترقیاتی شراکت داری بڑھانے کا مطالبہ

پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ صوبے کی ماحولیاتی لچک (Climate Resilience) کو بہتر بنانے کے لیے ترقیاتی شراکت داروں کو شامل کرے کیونکہ صوبہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث طوفانی بارشوں، اچانک آنے والے سیلابوں اور کلاؤڈ برسٹ جیسے واقعات کے زیادہ خطرے میں رہتا ہے۔

28 اگست کو صوبائی حکومت کی جانب سے اقتصادی امور ڈویژن اور منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کی وزارت کے سیکریٹریز کو ایک خط بھیجا گیا، جس میں کہا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید اور تباہ کن واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور آئندہ ان میں مزید شدت اور وسعت کا امکان ہے۔

خط میں کہا گیا:

"ہم وزارتِ منصوبہ بندی اور وزارتِ اقتصادی امور سے گزارش کرتے ہیں کہ کے پی کے لیے شراکت داروں کی معاونت حاصل کرنے میں مدد کریں تاکہ جدید ترین اقدامات کے ذریعے صوبے میں ماحولیاتی لچک کو بڑھایا جا سکے۔”

طلب کردہ سرمایہ کاری کے شعبے
صوبائی حکومت نے خط میں جدید ایمرجنسی وارننگ سسٹمز، سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات، واٹرشیڈ مینجمنٹ، ماحولیاتی لچکدار انفراسٹرکچر و کمیونیکیشن نیٹ ورکس، کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر اور قدرتی حل (Nature-Based Solutions) جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا۔

تباہ کاریوں کی تفصیلات
خط میں بتایا گیا کہ 19 اگست کو سیلابی نقصانات اور امدادی سرگرمیوں کے جائزے کے اجلاس کے بعد ایک جامع سروے شروع کیا گیا جس میں متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے قرضوں کی ری فنانسنگ کے امکان پر بھی بات کی گئی۔

اعداد و شمار کے مطابق حالیہ طوفانی بارشوں، سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ سے 406 افراد جاں بحق، 248 زخمی ہوئے، جبکہ 5,412 مویشی ہلاک اور 57,892 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ اسی طرح 667 گھر مکمل طور پر تباہ، 2,520 جزوی طور پر متاثر، 1,280 دکانیں تباہہوئیں۔ مزید یہ کہ 513 کلومیٹر سڑکیں، 47 پل، 41 کلورٹس، 691 اسکول، 60 صحت مراکز، 477 آبپاشی اسکیمیں اور 367 پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اسکیمیں تباہ ہوئیں۔

صوبائی حکومت نے واضح کیا کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں کیونکہ بارشوں کا سلسلہ مزید اضلاع تک پھیل چکا ہے اور نقصانات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

معاوضہ اور بحالی کے اقدامات
خط کے مطابق حکومت متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کر رہی ہے، جس میں فی جان بحق شخص کے لیے 20 لاکھ روپے اور ہر زخمی کے لیے 50 لاکھ روپے معاوضہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں، تباہ شدہ دکانوں کے مالکان کو بھی معاوضہ دینے کی منظوری دی گئی ہے جو پہلے پی ڈی ایم اے پالیسی میں شامل نہیں تھا۔

اب تک صوبائی حکومت 6.5 ارب روپے جاری کر چکی ہے، جن سے انخلا، ریسکیو آپریشنز، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر امداد فراہم کی گئی، ساتھ ہی اموات، زخمیوں اور املاک کے نقصانات کا معاوضہ بھی دیا گیا۔

ابتدائی جائزے کے مطابق، صرف سرکاری انفراسٹرکچر (سڑکوں، پلوں، کلورٹس، آبپاشی، صحت اور تعلیمی ڈھانچے) کی بحالی پر 20 ارب روپے لاگت آئے گی، جب کہ نجی نقصانات کے لیے علیحدہ رقم ادا کی جا رہی ہے۔

وفاقی حکومت سے تعاون کی اپیل
خط میں وفاقی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ترقیاتی شراکت داروں سے تعاون کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے ایسے جاری منصوبوں کی نشاندہی شروع کردی ہے جن کے فنڈز ابھی غیر استعمال شدہ ہیں تاکہ انہیں متاثرہ علاقوں کی بحالی پر منتقل کیا جا سکے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ صوبہ مستقبل میں عالمی شراکت داروں کے تعاون سے اپنے اداروں اور فیلڈ ریسپونڈرز کی صلاحیتیں عالمی معیار کے مطابق بہتر بنانا چاہتا ہے تاکہ کسی بھی قدرتی آفت سے زیادہ مؤثر انداز میں نمٹا جا سکے۔

متعلقہ خبریں