پاکستان میں ہر سال کتے کے کاٹنے سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوتی ہیں: رپورٹ
اسلام آباد: دنیا کی سب سے مہلک مگر قابلِ تدارک بیماریوں میں شمار ہونے والی ریبیز ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 59 ہزار جانیں لیتی ہے، جن میں زیادہ تر اموات ایشیا اور افریقہ میں ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی ریبیز سے ہر سال تقریباً ایک ہزار افراد، جن میں اکثریت بچوں کی ہے، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، حالانکہ یہ مرض بروقت علاج سے سو فیصد قابلِ علاج ہے۔
ورلڈ ریبیز ڈے آج (28 ستمبر) کو منایا جا رہا ہے، جس کا موضوع ہے: "ابھی عمل کریں: آپ، میں اور کمیونٹی”۔ اس کا مقصد اس بیماری کے خاتمے کے لیے فوری آگاہی اور اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔
چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عرفان حبیب نے کہا کہ:
“ریبیز موت کی سزا نہیں ہے، اگر بروقت اقدامات کیے جائیں تو یہ مکمل طور پر روکی جا سکتی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے دیہی اور کم آمدنی والے علاقوں میں صورتحال زیادہ سنگین ہے، جہاں بچے کھیلتے ہوئے یا اسکول جاتے ہوئے آوارہ کتوں کے کاٹنے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر کیسز میں علاج میں تاخیر یا سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اموات واقع ہو جاتی ہیں۔
چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ادارہ سرکاری و نجی شراکت داری کے تحت پاکستان بھر میں 14 ایمرجنسی رومز اور 300 ٹیلی میڈیسن سیٹلائٹ مراکز کے ذریعے 24/7 ریبیز ویکسین اور امیونوگلوبیولن کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ صرف 2025 میں ہی فاؤنڈیشن نے 11 ہزار سے زائد بچوں کا علاج کیا جو کتوں کے کاٹنے سے متاثر ہوئے تھے۔
ڈاکٹر حبیب کے مطابق:
“ہر والدین اور سرپرست کو یہ اقدامات ضرور معلوم ہونے چاہئیں: کتے کے کاٹے ہوئے زخم کو کم از کم 15 منٹ تک صابن اور پانی سے دھوئیں، فوری ایمرجنسی کیئر حاصل کریں، اور ویکسین کا کورس مکمل کریں۔”
دنیا کے کئی ممالک جیسے سری لنکا، بنگلہ دیش اور فلپائن نے کمیونٹی اور ہیلتھ کیئر کے مشترکہ اقدامات سے ریبیز سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی کی ہے۔ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کا ماننا ہے کہ پاکستان بھی اگر عوام، ادارے اور خاندان مل کر کوشش کریں تو اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ادارے نے عوام سے اپنی ریبیز پریونشن ڈرائیو کی حمایت کی اپیل کی ہے تاکہ پاکستان کا کوئی بچہ اس قابلِ علاج بیماری سے جان نہ گنوائے۔