حیدرآباد: صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کی کھلی کچہری ایک بار پھر وعدوں اور اعلانات سے بھرپور رہی، مگر شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوال جوں کا توں ہے کہ کیا یہ وعدے کبھی عملی شکل اختیار کریں گے یا ہمیشہ کی طرح صرف تقریروں تک محدود رہیں گے؟ وزیر نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں گندم کے کاشتکاروں کی مدد کے لیے 56 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں، لیکن کسانوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ برسوں کے اعلانات آج تک فائلوں میں دھول کھا رہے ہیں۔ سندھ کلچرل ڈے کے موقع پر انہوں نے پیپلز پارٹی کی عوام دوستی کا ذکر تو کیا، مگر کچہری میں بیٹھے شہری پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور زمینوں کی رجسٹریشن جیسے بنیادی مسائل کا حل مانگ رہے تھے—وہ مسائل جن کا سایہ برسوں سے کسی بھی حکومتی “عوامی خدمت” کے دعوے پر بھاری پڑتا آ رہا ہے۔
شرجیل میمن نے ایک مہینے کے اندر حیدرآباد–ٹنڈو اللہ یار روٹ پر پیپلز بس سروس چلانے کا وعدہ بھی کیا، مگر شہریوں نے اس اعلان کو بھی پرانے وعدوں کی فہرست میں ڈال دیا، کیونکہ بیشتر علاقوں میں آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام برسوں پیچھے کھڑا ہے۔ وزیر نے کہا کہ کھلی کچہری میں موصول ہونے والی شکایات جلد حل کی جائیں گی، لیکن نہ کوئی طریقۂ کار بتایا گیا اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن، جس کے باعث لوگوں کو اندیشہ ہے کہ یہ وعدے بھی دیگر اعلانات کی طرح سرکاری دفاتر میں گم ہوجائیں گے۔
کچہری کے دوران وزیر نے NICVD کی کامیابیوں، IBA کی اصلاحات اور 50 لاکھ روپے کے فٹبال گراؤنڈ کی تعمیر کا ذکر کیا، مگر شہر میں پینے کے صاف پانی، ناکارہ شہری سہولیات، پولیس بھرتی اور بنیادی تعلیم جیسے سنگین مسائل بدستور جوں کے توں ہیں۔ انہوں نے وفاق اور حیسکو کی کارکردگی پر تنقید بھی کی، لیکن شہریوں نے سوال اٹھایا کہ اگر بجلی اور گیس کا بحران صرف وفاق کی ناکامی ہے تو صوبائی محکمے اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں ناکام کیوں ہیں؟
کھلی کچہری میں عوام نے صاف پانی کی عدم فراہمی، مستقل بجلی کی بندش، تعلیمی نظام کی خرابی، صحت کی سہولیات کی کمی، زرعی زمینوں کے تنازعات اور ٹرانسپورٹ کے مسائل پر کھل کر بات کی، لیکن وزیر موصوف نے ہر سوال کا جواب صرف “جلد” اور “ان شاء اللہ” پر چھوڑ دیا، بغیر کسی ٹھوس اقدام یا فالو اپ کے۔
شہریوں نے جاتے جاتے سچ کہہ دیا:
“کھلی کچہریاں سن تو لیتی ہیں، مگر شنوائی کہیں نہیں ہوتی۔”