حکومت نے بیشتر مطالبات مان لیے، بھاری جرمانوں کا نیا قانون نظرِ ثانی کے لیے واپس
پنجاب اور جڑواں شہروں میں پیر کے روز پبلک ٹرانسپورٹ کا پہیہ اس وقت جام رہا جب ٹرانسپورٹرز نے بھاری جرمانوں اور سخت قوانین پر مشتمل نئے ٹریفک آرڈیننس کے خلاف صوبہ بھر میں ہڑتال کی کال دی۔ تاہم دن گزرنے کے ساتھ صورتِ حال میں بڑی تبدیلی اُس وقت آئی جب ٹرانسپورٹرز اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور حکام نے بیشتر مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ہڑتال ختم کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
ہڑتال کے باعث لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں بین الاضلاعی اور اندرونِ شہر ٹرانسپورٹ بڑی حد تک معطل رہی۔ جڑواں شہروں میں اسکول وین مالکان بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے جس سے طلبہ اور والدین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پیرودھائی جنرل بس اسٹینڈ تقریباً سنسان دکھائی دیا جبکہ جی ٹی روڈ پر سامان بردار گاڑیوں کی معطلی نے غذائی اجناس کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں پیدا کیں۔
ٹرانسپورٹرز کی جانب سے احتجاج کا بنیادی نکتہ پنجاب موٹر وہیکلز (ترمیمی) آرڈیننس 2025 تھا جس میں بھاری جرمانوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا تھا۔ ایکشن کمیٹی کے رہنما لالا یاسر کے مطابق ٹرانسپورٹرز اس آرڈیننس کو عوام دشمن اقدام قرار دیتے تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ معمولی خلاف ورزیوں پر مقدمات اور بڑے جرمانے محض ریونیو بڑھانے کی کوشش ہے۔
مذاکرات پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر کی سربراہی میں ہوئے، جن میں حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے اہم مطالبات سے اتفاق کر لیا۔ فریقین اس نتیجے پر پہنچے کہ آرڈیننس کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا، معمولی خلاف ورزیوں پر ایف آئی آر کاٹنے کا عمل ختم ہوگا، بھاری جرمانوں میں نرمی کی جائے گی اور مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو ٹرانسپورٹ تنظیموں کی تجاویز کی روشنی میں قانون میں ترامیم تجویز کریں گی۔ مزید بات چیت کے لیے دونوں جانب کا ایک اجلاس منگل کے روز بھی طے پا گیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی ٹرانسپورٹ فیڈریشن کے چیئرمین راجہ محمد ریاض نے الزام عائد کیا کہ ابتدا میں حکومت نے مسئلے کے حل کے بجائے ٹرانسپورٹرز کے اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تاہم ٹرانسپورٹ بند ہونے سے پیدا ہونے والے عوامی دباؤ کے باعث حکام کو بالآخر مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑا۔
دن کے اختتام پر ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا، مگر ساتھ ہی واضح کر دیا کہ اگر حکومت نے وعدے کے مطابق قانون میں تبدیلیاں نہ کیں تو پہیہ دوبارہ جام کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ عوامی مشاورت کے بغیر نافذ کیے جانے والے قوانین نہ صرف اعتماد کو مجروح کرتے ہیں بلکہ صوبے کی معاشی اور شہری زندگی کو بھی مفلوج کر سکتے ہیں۔