فوجداری قوانین، 100 ترامیم، منشیات اور ریلوے مقدمات میں سزائے موت ختم، تفتیش 45 دن میں غیرقانونی پولیس حراست پر 7 سال قید.اشتہاری ملزم کا شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، بینک کارڈ اور بنک اکاؤنٹ بلاک ہوگا

اسلام آباد(نمائندہ مقامی حکومت) وفاقی حکومت نے کریمنل لا ء ریفارمز 2021ءکے تحت ضابطہ فوجداری ‘ ضابطہ تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت کی دفعات میں100سے زائد نمایاں تبدیلیاں تجویز کردیں۔ ریلوے ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘پولیس کے سامنے دفعہ 161 ض ۔ ف کا بیان آڈیو /وڈیو ذرائع سے ریکارڈ کیا جا سکے گا۔ تفتیش 45روزکے اندر مکمل کی جائے گی۔غیر قانونی پولیس حراست پر 7 سال قید کی سزاہوگی ۔قانون شہادت میں شہادت ریکارڈ کروانے کیلئے جدید الیکٹرانک ذرائع استعمال کرنے کی تجویز ہے، عدالت میں آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ،ای میل، فیکس، ٹیکسٹ پیغام بطور ثبوت تسلیم کئے جاسکیں گے،آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کرنے والےکو بطور گواہ عدالت میں طلبی البتہ لازم نہیں ہوگی لیکن عدالت اطمینان کیلئے اسےطلب بھی کرسکتی ہے۔ درخواست ضمانت، بریت یا اخراج کو زیر التوا نہیں رکھا جاسکے گا۔عدالت تین دن سے زیادہ کیلئے کیس کو ملتوی نہیں کرے گی جب تک کہ کوئی غیر معمولی وجوہات نہ ہوں لیکن عدالت کو وجہ تحریر کرنا ہوگی‘غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی۔خواتین کی جاسوسی، ہراساں کرنا، کوئلے پر چلنا اور کسی کو پانی میں پھینکنا بھی جرم ہوگا، جج صاحبان متعلقہ ہائی کورٹ کو ماہانہ رپورٹ بھجوانے کے پابندہوں گے ۔ضابطہ تعزیرات پاکستان میں شامل نئی دفعہ کے تحت منشیات پر سزائے موت کے بجائے عمر بھر جیل میں رکھنے، جھوٹے مقدمہ پر 10 لاکھ ہرجانہ،بیوی پر تشدد کی سزا 3 سال قید ہو گی، ضابطہ فوجداری میں 87 تبدیلیاں کرنیکی تجاویز مرتب کی گئی ہیں ، 36 نئی دفعات متعارف،47 دفعات میں ترامیم، اور 4 دفعات حذف کر دی گئی ہیں، مسودے کی
36 نئی دفعات کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق میڈیکل بورڈکا سربراہ کوالیفائڈ اور تجربہ کار ماہر نفسیات ہوگا، بغیر وارنٹ گرفتاری پر انچارج تھانہ کے علم میں لایا جائیگا جو اپنا اطمینان کرکے اسے تحریر کریگا، زیر حراست فردکے اہل خانہ کو آگاہ کیا جائیگا ،24 گھنٹے کے اندر اندر وکیل تک رسائی دی جائیگی ، اخراجات نہ ہونیکی صورت میں سرکاری خرچے پر وکیل فراہم کیا جائیگا، زیر حراست شخص اور وکیل کو مکمل پرائیویسی دی جائیگی،صوبائی حکومت ہر ضلع میں کنٹرول روم بنائے گی، اسلحہ کی سر عام کی نمائش کرنے والوں کے خلاف نوٹس یا حکم جاری کیا جائیگا جسکی مدت تین ماہ سے چھ ماہ تک ہوگی، ریپ کیسوں میں 72 گھنٹوں میں سیمپل لے کر ڈی این اے ٹیسٹ منظور شدہ لیبارٹری سے کروایا جائیگا،اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو وقوعہ کے سات روز کے اندر سیمپل کا ڈی این ٹیسٹ کروایا جائیگا اور اسکی رازداری کو یقینی بنایا جائیگا،اگر گواہ کسی ٹھوس وجہ کے بغیرکیس میں غیر حاضر رہے گا اور عدالت اسےجرمانہ یا جائیداد منسلک کرنے کی سزا دے سکے گی،ہائیکورٹ ٹرائل کا فیصلہ 9 ماہ میں مکمل ہوجائیگا،زیر التوا کیسوں کی ماہانہ رپورٹ معہ وجوہات متعلقہ ہائیکورٹ اور نقل صوبائی اور وفاقی سیکرٹری قانون کو بھیجی جائیگی،مطمئن ہونے پر ہائیکورٹ مقدمے کی تکمیل کیلئے نئی ٹائم لائن مقرر کریگی،عدم اطمینان پر پریزائیڈنگ آفیسر کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی جائیگی، مجوزہ ترامیم کے مطابق ٹرائل کورٹ کیس مینجمنٹ کا شیڈول تجویز کرے گی ، قابل سماعت جرائم میں ایف آئی آر کا الیکٹرانک اندراج ممکن بنایا گیا ہے جس کیلئے وفاقی یا صوبائی حکومت قواعد وضع کرے گی۔ اشتہاری ملزم کا شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، بینک کارڈ اور بنک اکاؤنٹ بلاک کیا جا سکے گا۔ ایف آئی آر کے اندراج کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا جا رہا ہے جس سے جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج اور صحیح ایف آئی آر کے عدم اندراج جیسے مسائل کا سدباب ہو گا۔ پولیس کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان آڈیو ویڈیو ذرائع سے ریکارڈ کیا جا سکے گا۔ انوسٹی گیشن 45 روز کے اندر مکمل کی جائے گی۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کی رپورٹ پولیس پراسیکیوٹر کو بھیجے گی جو اس کی جانچ پڑتال کر کے اس کے اندر نقائص کی نشاندہی اور تصحیح کروائے گا۔ جج صاحبان ماہانہ رپورٹ اپنے متعلقہ ہائی کورٹ کو بھجوانے کے پابند ہوں گے اور اگر ٹرائل کا فیصلہ 9 مہینوں میں نہیں ہوتا تو اس کی وضاحت دینی ہو گی۔ فوجداری مقدمات میں تمام گواہان کی شہادتیں ، آڈیو یا ویڈیو ذرائع سے ریکارڈ کی جا سکیں گی جن کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اس زبان میں جس میں شہادت دی گئی ہو لفظ بہ لفظ لکھا جائے گا۔ گواہان کی شہادتیں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کی جا سکیں گی۔ وفاقی حکومت وقتاً فوقتاً سزائیں جاری کرنے یا عائد کرنے کیلئے رہنما اصول وضع کرے گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت تھانوں کو اخراجات کی مد میں فنڈز جاری کریں گی۔ فوجداری قانون میں ترمیم کے ذریعے پلی بارگیننگ کا نیا تصور متعارف کرایا گیا ہے جو بنیادی طور پر عدالت کے بیک لاگز کو کم کرے گا جبکہ پلی بارگیننگ کا اطلاق موت ، عمر قید یا سات سال سے زیادہ سزا کے جرائم اور عورتوں یا بچوں کے خلاف جرائم والی سزاؤں پر نہیں ہو گا۔ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے جلسے جلوسوں میں ہتھیار لے جانے پر پابندی ہو گی۔ ترمیم شدہ نئے قانون میں تعزیرات پاکستان میں اہم ترامیم کی گئی ہیں اور مختلف جرائم میں سزاؤں کی حد کو بڑھایا گیا ہے۔ قانون شہادت میں بھی اہم ترامیم کی گئی ہیں جس میں جدید آلات کے ذریعے حاصل ہونے والے شواہد کو شہادت کا حصہ بنایا جا سکے گا۔ وفاقی دارالحکومت میں فرانزک سائنس اور کریمنل پراسیکیوشن سروس بنانے کیلئے نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں جبکہ جیل قوانین میں بھی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں

متعلقہ خبریں