اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا سی ڈی اے تحلیل کرنے کا حکم معطل
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کے ڈویژن بینچ نے منگل کے روز ایک سنگل بینچ کے اس فیصلے کو معطل کر دیا جس میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) کو مکمل طور پر تحلیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ڈویژن بینچ میں جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس رانا انعام امین منہاس شامل تھے، جنہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی کے فیصلے کے خلاف دائر انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کی۔ جسٹس کیانی نے اپنے فیصلے میں سی ڈی اے کو “غیر مؤثر ادارہ” قرار دیتے ہوئے اس کے تمام اختیارات، اثاثے اور انتظامی امور کو میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (MCI) کے حوالے کرنے کی ہدایت دی تھی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ کاشف علی ملک نے سی ڈی اے کی جانب سے پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ اصل درخواست میں صرف رائٹ آف وے (ROW) چارجز کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو سی ڈی اے نے فیول اسٹیشنز اور دیگر تجارتی اداروں پر عائد کیے تھے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ،
“ہماری درخواست میں سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔”
ڈویژن بینچ نے استفسار کیا کہ،
“کیا آپ سنگل بینچ کے اس فیصلے کا دفاع کریں گے جس میں سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا حکم دیا گیا؟”
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ،
“نہ تو ہم نے ایسا مطالبہ کیا تھا، اور نہ ہی ہم ایسے حکم کا دفاع کریں گے۔”
فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈویژن بینچ نے سی ڈی اے کے خاتمے اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق سنگل بینچ کے فیصلے کو عارضی طور پر معطل کر دیا اور اتھارٹی کے انتظامی و بلدیاتی اختیارات کو بحال کر دیا، جو اپیل کے حتمی فیصلے تک برقرار رہیں گے۔
جسٹس کیانی کے فیصلے میں ایس آر او نمبر 576(I)/2015 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، جس کے تحت ہاؤسنگ سوسائٹیز، پیٹرول پمپس اور تجارتی اداروں سے رائٹ آف وے چارجز وصول کیے جا رہے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے نفاذ کے بعد سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کی دفعہ 15-A مؤثر نہیں رہی، اور تمام بلدیاتی، ضابطہ جاتی اور محصولات سے متعلق اختیارات ایم سی آئی کو منتقل ہو چکے ہیں۔
جسٹس کیانی نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سی ڈی اے کا رائٹ آف وے چارجز عائد کرنا غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکلز 23، 24، 77 اور 140-A سے متصادم ہے، کیونکہ ٹیکسیشن کے اختیارات صرف پارلیمنٹ اور منتخب بلدیاتی اداروں کو حاصل ہیں، نہ کہ کسی غیر منتخب ریگولیٹری باڈی کو۔
مزید برآں، عدالت نے ہدایت دی تھی کہ 2015 سے اب تک وصول کیے گئے تمام غیر قانونی رائٹ آف وے چارجز متاثرہ فریقین کو واپس کیے جائیں، جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو سی ڈی اے کے مالیاتی حسابات کا آڈٹ کرنے اور بلدیاتی آمدنی ایم سی آئی کو منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
فیصلے میں وفاقی حکومت کو بھی کہا گیا تھا کہ وہ سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کی دفعہ 52 کے تحت ادارے کے باضابطہ خاتمے اور اس کے اختیارات و اثاثوں کی منتقلی کے اقدامات شروع کرے۔
تاہم، ڈویژن بینچ کے تازہ حکم کے بعد سی ڈی اے فی الحال اپنے اختیارات کے ساتھ بحال ہو گئی ہے، اور مقدمے کی حتمی سماعت آئندہ تاریخ پر ہوگی۔