کراچی: کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ہیڈ آفس میں جمعے کے روز سٹی کونسل کا اجلاس بھاری ٹریفک جرمانوں کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر شدید ہنگامہ آرائی کا شکار ہوگیا، جب اراکین نے ای چالان سسٹم کے ذریعے 50 ہزار روپے تک کے نئے ٹریفک جرمانوں کو مسترد کردیا۔
اپوزیشن لیڈر ایڈووکیٹ سیف الدین کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت نے شہریوں پر غیر معمولی مالی بوجھ ڈال دیا ہے اور یہ فیصلہ عوامی مفاد کے منافی ہے۔ قرارداد میں سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھاری جرمانوں سے متعلق نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد اراکین نے بھی اپوزیشن جماعتوں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے نمائندوں کے ساتھ مل کر قرارداد کی حمایت کی۔ پی ٹی آئی اور جے آئی کے اراکین نے کے ایم سی ہیڈ آفس کے اندر اور باہر احتجاجی مظاہرے بھی کیے، جہاں انہوں نے ای چالان کے نفاذ کے خلاف نعرے بازی کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ شہر کی سڑکیں اور گلیاں خستہ حال ہیں، ٹریفک نشانات، رفتار کی حد اور دیگر ہدایات موجود نہیں، اس صورت میں بھاری جرمانے غیر منصفانہ ہیں۔ اراکین نے تجویز دی کہ ای چالان کو فوری جرمانے کے بجائے ابتدائی طور پر انتباہی نوٹس کے طور پر جاری کیا جائے، تاکہ شہریوں میں آگاہی پیدا ہو۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹریفک پولیس کو شہریوں کو ہراساں کرنے کے بجائے تربیت دینے اور ٹریفک نظم و ضبط قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جبکہ سڑکوں کی مرمت اور نشاندہی کے بغیر سخت کارروائی غیر منصفانہ ہے۔ مزید کہا گیا کہ شہر میں نصب کیمرے صرف چالان کے لیے نہیں بلکہ جرائم پر قابو پانے کے لیے استعمال کیے جائیں۔
تحریک انصاف کے رکن سعد خان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "کراچی کی سڑکیں افغانستان جیسی ہیں اور چالان آذربائیجان جیسے!”، جبکہ جماعت اسلامی کے جنید مکی نے سوال اٹھایا کہ صرف کراچی ہی کو ای چالان نظام کا تجربہ گاہ کیوں بنایا گیا؟ انہوں نے “ڈمپر مافیا” کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر بھی صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پیپلز پارٹی کے رکن نجمی عالم نے حکومتی موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ای چالان نظام کے اثرات واضح ہو رہے ہیں، خاص طور پر شارع فیصل پر جہاں اب لوگ ٹریفک قوانین کی زیادہ پابندی کر رہے ہیں۔
بحث کے دوران ماحول اتنا گرما گیا کہ ڈپٹی میئر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا، اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ تاریخ بعد میں دی جائے گی۔
اسی اجلاس میں پیپلز پارٹی نے اکثریتی ووٹوں سے ایک اور قرارداد منظور کرتے ہوئے کریم آباد انڈر پاس کو ڈاکٹر عاصم حسین کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی، ان کی "ذاتی دلچسپی اور منصوبے میں کردار” کے اعتراف میں۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر عاصم یا ان کے نمائندے کو مدعو کیا جائے گا۔
اسی طرح خالد بن ولید روڈ کے اوورہیڈ برج کو مرحوم محمد عمر جٹ (سابق ضلعی صدر پیپلز پارٹی ملیر) کے نام سے منسوب کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں مزید کئی ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی گئی جن میں جہانگیر روڈ کی بحالی، گرومندر سے تین ہٹی تک نالے کی صفائی، شارع فیصل سے حبیب یونیورسٹی تک ناتھا خان برج لنک روڈ کی تعمیر، اور فائر بریگیڈ کے اعلیٰ عہدوں کی اپ گریڈیشن شامل ہیں۔
اجلاس کے آغاز میں سابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے انتقال پر تعزیتی قرارداد منظور کی گئی، جبکہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر پر بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کی قرارداد بھی متفقہ طور پر پاس کی گئی۔
مزید برآں، سٹی کونسل نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کیرن اسپتال روڈ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے منسوب کیا جائے، اور شہر بھر میں پارکس، اسکولز، ہسپتالوں اور سڑکوں پر درخت لگانے کی مہم شروع کی جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔