سیالکوٹ ضمنی الیکشن: ن لیگ کی برتری، پی ٹی آئی اور پی پی کا دھاندلی کا شور

سیالکوٹ (نمائندہ خصوصی) : پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 52 سیالکوٹ میں ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد وڑائچ کو واضح برتری حاصل ہے۔ 185 پولنگ اسٹیشنز میں سے 165 کے نتائج کے مطابق حنا ارشد وڑائچ نے 69,316 ووٹ حاصل کیے، جب کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار فاخر نشاط گھمن 35,473 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار راحیل کامران چیمہ تیسرے نمبر پر آئے۔

یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے مرحوم ایم پی اے ارشد وڑائچ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔ انتخابی دن کے دوران پولنگ اسٹیشنز پر گہما گہمی، جوش و خروش اور کشیدگی کا ماحول رہا۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں، نعرے بازی کی گئی اور انتخابی عمل پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ پی ٹی آئی کی رہنما ریحانہ ڈار نے سمبڑیال چوک پر احتجاج کی قیادت کی، جب کہ پارٹی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے دعویٰ کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو زبردستی پولنگ اسٹیشنز سے نکالا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

حلقے میں امیدواروں کی جانب سے ووٹرز کے لیے ناشتہ کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں نان، چھولے، پائے اور ٹھنڈی لسی شامل تھی۔ اس دلچسپ روایت کو عوامی حلقوں میں "انتخابی مہمان نوازی” قرار دیا جا رہا ہے۔

انتخابی بے ضابطگیوں پر اپوزیشن جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے خبردار کیا کہ اگر نتائج میں ردوبدل کیا گیا تو یہ جمہوریت کے لیے بدشگونی ہو گی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں نے انتخابی عمل پر عدم اعتماد ظاہر کیا۔ دوسری جانب پنجاب کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شکست خوردہ جماعتیں اب الزامات کی سیاست پر اتر آئی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چند سو ووٹ لینے والی جماعت بھی دھاندلی کا واویلا کر رہی ہے۔

حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 97 ہزار 185 ہے جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 57 ہزار 725 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 39 ہزار 460 ہے۔ الیکشن کمیشن نے 38 پولنگ اسٹیشنز کو حساس اور 11 کو انتہائی حساس قرار دیا تھا جہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اب تمام نگاہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے حتمی نتائج اور اپوزیشن جماعتوں کے اگلے لائحہ عمل پر مرکوز ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کی جیت اگر برقرار رہتی ہے تو یہ اس کے لیے عوامی اعتماد کی علامت ہوگی، جب کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک سیاسی آزمائش کی صورت اختیار کر سکتی ہے، خاص طور پر آنے والے بلدیاتی اور عام انتخابات کے تناظر میں۔

متعلقہ خبریں