کراچی کی خستہ حال عمارتوں کا مسئلہ، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن و حکومتی اراکین ہم آواز

خستہ حال عمارتوں کی نشاندہی کے لیے عوام اور اراکینِ اسمبلی سے اپیل

کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے لیاری عمارت سانحے کے پس منظر میں اراکینِ اسمبلی اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صوبے بھر میں خستہ حال اور خطرناک عمارتوں کی نشاندہی کریں تاکہ قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔

صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعید غنی نے بتایا کہ لیاری میں گرنے والی عمارت 1980 میں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی اور اس پر پہلے ہی انہدام کے نوٹس دیے جا چکے تھے۔ اس عمارت میں 45 خاندان مقیم تھے۔ سانحے کے بعد حکومت نے متاثرین کو کمیونٹی سینٹرز اور ہوٹلوں میں منتقل کرنے کی پیشکش کی مگر بیشتر نے رشتہ داروں کے پاس رہنا پسند کیا۔

وزیر بلدیات نے کہا:

اب تک 87 خطرناک عمارتیں خالی کرائی جا چکی ہیں، جن میں سے 66 کراچی کے ضلع جنوبی میں ہیں، جہاں سے 325 خاندانوں کو منتقل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سانحے کے متاثرین کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے جسے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر بڑھایا جائے گا، جبکہ زخمیوں کو بھی مالی امداد دی جائے گی۔

ایوان میں ایم کیو ایم کے رکن محمد عثمان نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ فیصل نے گلستانِ جوہر کی 42 عمارتوں کو نوٹس جاری کیے ہیں جہاں 16 ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ رکن اسمبلی نجَم مرزا نے اس معاملے پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔

ایم کیو ایم کے راشد خان نے نشاندہی کی کہ حیدرآباد میں 74 عمارتوں کو نوٹس دیے گئے ہیں اور وہاں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جبکہ متاثرہ خاندانوں کو معاوضے کے بغیر سڑکوں پر بٹھا دیا گیا۔ سعید غنی نے جواب دیا کہ خستہ حال عمارتوں سے انخلا ایک تکلیف دہ عمل ہے مگر لاشیں نکالنے کا عمل اس سے زیادہ اذیت ناک ہے، لہٰذا لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ناگزیر ہے۔ حکومت ان خاندانوں کو پہلے مرحلے میں تین ماہ کا کرایہ فراہم کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے رکن شبیر قریشی نے کہا کہ ٹریفک پولیس، موٹر سائیکل سواروں کو اجرک ڈیزائن والی نمبر پلیٹس کے معاملے پر ہراساں کر رہی ہے۔ اس پر صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چاؤلہ نے وضاحت کی کہ نئی سکیورٹی فیچرز والی نمبر پلیٹس 2022 سے رائج ہیں اور ان پر اجرک کا ڈیزائن سندھ کی ثقافت کا حصہ ہے، لہٰذا اسے متنازع نہ بنایا جائے۔

متعلقہ خبریں