کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے باتھ آئی لینڈ میں 14 منزلہ عمارت کی تعمیر کے خلاف درخواست خارج کر دی

ایس بی سی اے، کے ایم سی اور ماسٹر پلان اتھارٹی کو اختیار ہے کہ وہ پلاٹس کی کمرشلائزیشن اور یکجائی کے فیصلے کرسکیں:عدالت

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے باتھ آئی لینڈ، کلفٹن میں 14 منزلہ کمرشل/رہائشی منصوبے کی تعمیر کے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA)، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (KMC) اور ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز 2002 (KBTPR) کے تحت پلاٹس کو کمرشلائز یا یکجا کر سکیں۔

یہ فیصلہ دو رکنی آئینی بینچ نے سنایا جس کی سربراہی جسٹس محمد کریم خان آغا کر رہے تھے۔ بینچ نے گلشنِ فیصل کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، باتھ آئی لینڈ کے متعدد مکینوں کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کر دیا۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ منصوبے کے لیے پلاٹ کی کمرشلائزیشن اور اس کے ساتھ ملحقہ زمین کو شامل کر کے عمارت کی تعمیر غیر قانونی ہے۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی بنیادی طور پر اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ زمین کا استعمال ضابطوں کے مطابق اور ذمہ دارانہ طریقے سے ہو۔ زمین کے استعمال کی تبدیلی — جیسے رہائشی سے کمرشل میں — صرف متعلقہ اتھارٹی کی اجازت سے ممکن ہے تاکہ قواعد، ماحولیاتی اثرات اور زوننگ کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ زمین کا اصل لیز 1976 میں کمرشل تھا، مگر 1984 میں اس کی حیثیت رہائشی میں تبدیل کر دی گئی تھی اور یہ حیثیت دہائیوں تک برقرار رہی۔ ان کے مطابق ڈویلپر نے اضافی زمین شامل کر کے پلاٹ کو بڑا کیا اور 14 منزلہ عمارت کی نئی تعمیراتی اسکیم پیش کی۔

دوسری جانب ڈویلپر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ منصوبہ مکمل طور پر قانونی ہے اور تمام ضروری اجازت نامے اور این او سی ایس بی سی اے اور کے ایم سی سے حاصل کیے جا چکے ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت قابلِ سماعت ہے یا نہیں، کیونکہ ہائی کورٹ اس وقت مداخلت کرتی ہے جب دیگر تمام قانونی راستے ختم ہو جائیں یا کوئی متبادل قانونی چارہ جوئی موجود نہ ہو۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ فریقین کے بیانات میں تضاد ہے۔ کے ایم سی کا مؤقف تھا کہ زمین بدستور کمرشل ہے اور اس حیثیت کے تحت این او سی جاری کیے گئے ہیں، جبکہ ایس بی سی اے اور سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ایس بی سی اے، کے ایم سی اور ماسٹر پلان اتھارٹی کو اختیار ہے کہ وہ پلاٹس کی کمرشلائزیشن اور یکجائی کے فیصلے کریں، بشرطیکہ یہ فیصلے KBTPR 2002 کے تحت ہوں۔ تاہم چونکہ معاملہ متنازعہ حقائق پر مبنی ہے اور فریقین نے اپنے مؤقف کے لیے مختلف دستاویزات پر انحصار کیا ہے، اس لیے عدالت نے کہا کہ اس کے دائرہ کار میں ان تنازعات کا حل ممکن نہیں۔

چنانچہ سندھ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ پلاٹ کی رہائشی یا کمرشل حیثیت اور اس کے انضمام کی قانونی حیثیت جیسے معاملات متنازعہ حقائق ہیں جن کا فیصلہ صرف آئینی دائرہ اختیار میں نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے عدالت نے درخواست اور اس سے منسلک تمام درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیں۔

متعلقہ خبریں