اقلیتوں کی محرومی میں اضافہ، قومی یکجہتی کے لیے خطرہ، سیمینار میں اظہار خیال

کراچی: پارلیمنٹرینز کمیشن برائے انسانی حقوق (PCHR) نے کہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو درپیش ’’ساختیاتی محرومی‘‘ (Structural Exclusion) ان میں بڑھتی ہوئی اجنبیت اور محرومی کا باعث بن رہی ہے، جس کے نتیجے میں قومی ہم آہنگی اور یکجہتی متاثر ہو رہی ہے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے تاریخی خطاب کے مطابق ایک ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں مذہب ذاتی معاملہ ہو اور ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

جمعرات کو کراچی میں منعقدہ اجلاس میں PCHR کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شفیق چوہدری نے کہا کہ آئین پاکستان شہریوں کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 25 شہریوں کو قانون کے تحت مساوات اور مساوی تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 27 ہر شہری کو سرکاری ملازمتوں میں برابر کا حق دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 36 اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ریاست کو خصوصی اقدامات کی پابند بناتا ہے۔ تاہم ان آئینی ضمانتوں کے باوجود اقلیتوں کو مساوی مواقع میسر نہیں، جس کی وجہ سے فوری عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ سپریم کورٹ کے 2014 کے تاریخی فیصلے (SMC No.1) پر اگر مکمل عمل درآمد کیا جاتا تو آج اقلیتوں کے مسائل میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہوتی۔

سندھ اسمبلی کے رکن مہیش کمار ہاسجا نے خطاب میں کہا کہ اقلیتوں کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور 70 فیصد سے زائد آسامیاں خالی رہتی ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ زیادہ تر اقلیتی افراد کو محض صفائی ستھرائی کی ملازمتوں تک محدود کر دیا جاتا ہے، خواہ ان کی قابلیت کچھ بھی ہو۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں بھی اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ تقریباً 60 فیصد اقلیتی طلبہ نے بتایا کہ انہیں داخلے سے محروم رکھا گیا یا کلاس میں علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سندھ میں اقلیتی بچوں کی اسکول سے باہر شرح 44 فیصد ہے جو قومی اوسط 27 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ اظہار رائے پر پابندیاں دراصل اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے حقوق کو متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں اختلافی آوازوں کو دبایا جائے، وہاں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔

نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے فادر شہزاد آشر نے کہا کہ حکومت نے اقلیتی امیدواروں کے لیے علیحدہ سی ایس ایس امتحان اور تیاری کورسز جیسے اقدامات کیے ہیں، لیکن ان اقدامات کو مستقل اور ادارہ جاتی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی شمولیت ممکن ہو سکے۔

مقررین نے زور دیا کہ جبری مذہب تبدیلی اور اقلیتوں پر تشدد جیسے واقعات اقلیتوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد مزید کم کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر شہناواز کنبھار کے واقعے کا حوالہ دیا جو 2024 میں توہین مذہب کے الزام کے بعد مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس اعتماد کے خلا کو صرف شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات اور انصاف کی فراہمی سے ہی پر کیا جا سکتا ہے۔

شرکا نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کے مسائل کو ذمہ داری سے اجاگر کرے اور ان کی مثبت خدمات کو نمایاں کرے تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔

اجلاس سے ایڈووکیٹ صفیہ قادر، ایڈووکیٹ تارا چند، کیپل دیو، ایم پی ایز روما صباحت، شام سندر، مکیش کمار چاولہ اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے کوآرڈینیٹر چندن ملہی نے بھی خطاب کیا۔

مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شمولیت محض اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ ایک مضبوط، منصفانہ اور متحد پاکستان کی بنیاد ہے۔

متعلقہ خبریں