عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات ناکام، لاک ڈاؤن مکمل قوت سے کرنے کا اعلان

مظفرآباد: آزاد جموں و کشمیر حکومت، وفاقی وزراء اور جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان تقریباً 13 گھنٹے طویل مذاکرات جمعرات کی صبح کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور ڈیڈلاک پیدا ہونے کے بعد ناکام ہو گئے۔

مذاکرات میں اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے اور بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر سے آئے مہاجرین کے لیے مخصوص نشستوں کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کے بعد ایکشن کمیٹی کے نمائندے واک آؤٹ کر گئے اور مذاکرات کو ’’نامکمل اور غیر نتیجہ خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ لاک ڈاؤن پوری قوت سے کیا جائے گا۔

وفاقی وزراء انجینئر امیر مقام اور طارق فضل چوہدری نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے اور ایکشن کمیٹی کے بیشتر قابلِ عمل مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں، تاہم آئینی ترمیم یا قانون سازی کے تقاضے کسی بند کمرے میں چند افراد کے فیصلے سے طے نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام بنیادی حقوق اور ان کے تحفظ سے مستفید ہوں۔ ’’پاکستان کے کسی اور خطے میں بجلی تین روپے فی یونٹ اور آٹا پچاس روپے فی کلو فراہم نہیں کیا جاتا، یہ رعایت صرف کشمیری عوام کی قربانیوں کے اعتراف میں دی جاتی ہے،‘‘ وزراء کا کہنا تھا۔

جے کے جے اے اے سی کے رہنما شوکت نواز میر نے مذاکرات کی ناکامی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے تمام اراکین اس بات پر متفق تھے کہ اشرافیہ کی مراعات اور مہاجرین کی مخصوص نشستوں کے خاتمے کے بغیر بات چیت مکمل نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ کئی امور پر پیش رفت ہوئی ہے اور وفاقی وزراء کا رویہ مثبت تھا، تاہم بنیادی مطالبات نہ ماننے پر مذاکرات ختم کرنا پڑے۔

مذاکرات کے اختتام کے بعد کمیٹی کے ارکان اور ان کے حامی نعرے لگاتے ہوئے مقام سے روانہ ہو گئے، جبکہ وفاقی وزراء اسلام آباد واپس چلے گئے۔

ادھر علی الصبح سوشل میڈیا پر سیکیورٹی فورسز کے بڑے قافلے کی مظفرآباد آمد کی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس سے عوام میں تشویش اور بے چینی پھیل گئی۔

رات گئے شوکت نواز میر نے لال چوک اپر اڈہ میں بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا پلیٹ فارم سیاسی نہیں بلکہ عوامی ہے۔ جو درست بات کرے گا وہ ہماری تعریف پائے گا اور جو عوامی حق کے خلاف ہو گا، ہم اسے مسترد کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے لیے مخصوص 12 نشستیں ہمیشہ آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق غصب کرنے کے لیے استعمال ہوئیں۔ ’’یہ نشستیں تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ جوڑنا ناانصافی ہے،‘‘ ان کا کہنا تھا۔

متعلقہ خبریں