جدید طرزِ حکمرانی میں مؤثر قیادت اور پالیسی کمیونیکیشن کی اہمیت اُجاگر

مظفرآباد: جدید سیاسی اور سماجی تناظر میں مؤثر قیادت اور مؤثر ابلاغ کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سابق برطانوی رکنِ پارلیمنٹ بیرسٹر عطاالرحمن چشتی نے کہا ہے کہ آج کے دور میں محض علم کافی نہیں، بلکہ اسے مؤثر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت بھی لازمی ہے۔

وہ منگل کے روز کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (KIM) کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک روزہ تربیتی ورکشاپ بعنوان "لیڈرشپ اینڈ پالیسی کمیونیکیشن” سے خطاب کر رہے تھے۔ بیرسٹر چشتی، جو عام طور پر آر۔ چشتی کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے کہا کہ موجودہ دور میں پالیسی سازی کے تین بنیادی ستون عوامی رائے، بصیرت اور اعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا،

"کسی قوم کے بیانیے کی اصل بنیاد سچ بولنے کے حوصلے میں ہے۔ آج کے دور میں جنگیں تلواروں سے نہیں بلکہ بیانیوں سے لڑی جاتی ہیں، اور وہ قومیں جو ڈیجیٹل بیانیے پر عبور حاصل کر لیتی ہیں، عالمی رائے عامہ کی سمت متعین کرتی ہیں۔”

47 سالہ برطانوی کنزرویٹو رہنما، جن کا تعلق مظفرآباد کے نواحی علاقے سے ہے، 2010 سے 2024 تک گیلنگھم اینڈ رینہم کے رکنِ پارلیمنٹ رہے، جبکہ 2022 میں وہ وزیرِ مملکت برائے لاطینی امریکہ اور کیریبین بھی رہ چکے ہیں۔

ورکشاپ میں آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے چار اراکین، سینئر سرکاری افسران، محکموں کے سربراہان اور جامعات کے ڈینز نے شرکت کی۔ خطاب کے دوران بیرسٹر چشتی نے کہا کہ مؤثر کمیونیکیشن کے لیے علم، اعتماد، وضاحت اور تیاری ناگزیر ہیں، جو عوامی تقریر، اسٹریٹجک کمیونیکیشن، میڈیا انگیجمنٹ اور بحران کے وقت پیغام رسانی کی بنیاد ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ

"پالیسی کمیونیکیشن کو محض ایک تعلیمی مضمون کے طور پر نہیں بلکہ عملی کامیابی کے ایک مؤثر آلے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔”

بیرسٹر چشتی نے اپنی پریزنٹیشن میں ملٹی میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ میں غزہ اور کشمیر سے متعلق سابقہ مباحثوں کی ویڈیوز، اپنے اور دیگر رہنماؤں کے انٹرویوز، اور ایک یورپی مندوب اور ہاؤس آف کامنز کمیٹی کے سربراہ کے درمیان ملاقات کے مناظر دکھائے۔

یہ مواد شرکاء کو پارلیمانی مباحثوں اور سفارتی مکالموں کی عملی مثالیں فراہم کرتا رہا، جس سے انہیں سیاسی ابلاغ کے حقیقی پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع ملا۔

متعلقہ خبریں