چشتیاں: مقامی صحافی کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ

صحافتی سرگرمی، تنقیدی اظہار اور عوامی مکالمے کو جرم نہ بنایا جائے: ہیومن رائٹس کمیشن

سائبر کرائم قانون کا استعمال اصل مجرموں کے خلاف کم، مگر اختلاف رائے رکھنے والوں اور تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف زیادہ ہو رہا ہے: ڈیجیٹل میڈیا سوسائٹی

پولیس سیاسی یا بااثر افراد کے دباؤ پر صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے پیکا ایکٹ جیسے قوانین کا استعمال کر رہی ہے: کمیونٹی میڈیا نیٹ ورک

بہاولنگر (نمائندہ خصوصی) چشتیاں ایک مقامی صحافی کے خلاف چشتیاں پولیس کی جانب سے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیے جانے کے بعد صحافتی برادری میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اور اسے آزادی اظہارِ رائے پر حملہ اور صحافیوں کی زبان بندی کی ایک تازہ مثال قرار دیا جا رہا ہے۔

مقدمہ ایک ذوالفقار ولد چراغدین نامی شخص کی جانب سے درج کروایا گیا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 26 مئی 2025 کو واٹس ایپ گروپ "Raheel Afzal ch NA 162 Bajwa Group Chishtian” میں اس کے خلاف ایک توہین آمیز اور نازیبا پوسٹ شیئر کی گئی۔ شکایت کنندہ کے مطابق یہ مواد "Farhanali30044” نامی آئی ڈی سے اپلوڈ کیا گیا اور اس میں ‘Edit’ اور ‘Added’ جیسے ٹولز کا استعمال کر کے ان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

چشتیاں پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے "Prevention of Electronic Crimes Act 2016” کی دفعہ 21 اور 11(D) کے تحت مقدمہ نمبر 366/25 تھانہ سٹی اے ڈویژن میں درج کر لیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ مواد دانستہ طور پر کردار کشی کے لیے اپلوڈ کیا گیا تھا، اور تفتیش شفاف انداز میں جاری ہے۔

دوسری جانب، اس مقدمے کے اندراج نے مقامی اور صوبائی سطح پر صحافیوں میں غم و غصے کی لہر پیدا کر دی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا سوساٗئٹی آف پاکستان، کمیونٹی میڈیا نیٹ ورک، اور دیگر صحافتی تنظیموں نے پولیس کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس کالے قانون کا سہارا لے کر صحافیوں کو خاموش کرانا دراصل حکومتی اداروں کی طرف سے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ پر پوسٹ ہونے والے مواد کو کسی فرد سے جوڑنے کے لیے صرف آئی ڈی یا اسکرین شاٹ کو بنیاد بنانا نہ صرف تکنیکی طور پر ناقص ہے بلکہ قانونی لحاظ سے بھی کمزور اور قابلِ اعتراض ہے۔ ان کے مطابق پولیس کی اس تیزی سے کی گئی کارروائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پنجاب پولیس سیاسی یا بااثر افراد کے دباؤ پر صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے PECA جیسے قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پیش رفت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائبر کرائم قانون کا استعمال اصل مجرموں کے خلاف تو کم، مگر اختلاف رائے رکھنے والوں اور تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف زیادہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی شہری کو کسی پوسٹ سے تکلیف یا قانونی اعتراض ہے تو اس کے لیے مناسب عدالتی و صحافتی فورمز موجود ہیں، لیکن پولیس کا یکطرفہ فوجداری مقدمہ درج کر کے صحافیوں کو ہراساں کرنا ناقابلِ قبول ہے۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے سر براہ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ پیکا ایکٹ کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے، خصوصاً ہتکِ عزت اور معلومات کی ترسیل سے متعلق دفعات کو مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کمیشن نے زور دیا کہ پیکا کا اطلاق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادیٔ اظہار اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کو مدنظر رکھ کر ہونا چاہیے۔ ان حقوق کا تحفظ جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے، اور انہیں سائبر کرائم کی روک تھام کے نام پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ صحافتی سرگرمی، تنقیدی اظہار اور عوامی مکالمے کو جرم نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف آزادی اظہار کے آئینی حق کو مجروح کرتے ہیں بلکہ صحافت کو دبانے کے منظم ہتھکنڈوں کو بھی آشکار کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے قبل مکمل اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں، تاکہ کسی بے گناہ کو محض اختلاف رائے کی سزا نہ دی جا سکے۔

اس واقعے نے ایک بار پھر اس سوال کو زندہ کر دیا ہے کہ آیا پاکستان میں آزادی اظہار واقعی محفوظ ہے یا پھر اسے قانون کے پردے میں مسلسل محدود کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں