کراچی کی سڑکیں اورانفراسٹرکچر

شہریار جنجوعہ

پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی دارالحکومت، کراچی برسہا برس سے بنیادی ڈھانچے کے مسائل کا شکار ہے، جو ہر بارش کے بعد اپنی بھیانک صورت میں سامنے آتے ہیں۔ حالیہ مون سون میں بھی صورتحال مختلف نہ رہی۔ بارش کے چند گھنٹوں بعد ہی شہر کی بڑی سڑکیں جھیل کا منظر پیش کرنے لگیں، ٹریفک جام معمول بن گیا اور شہری زندگی معطل ہو کر رہ گئی۔ یہ سب محض قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کی بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کی طویل تاریخ کا عکس ہے۔
جب بارشیں ہوتی ہیں تو شہر کی مرکزی شاہراہیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ نالے کچرے اور مٹی سے بھرے ہونے کے باعث نکاسی آب کا نظام بری طرح ناکام ہوجاتا ہے۔ لیاری، اورنگی، کورنگی اور ملیر جیسے نچلے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ شہری گھنٹوں پانی میں پھنسی گاڑیوں میں سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں، حادثات پیش آتے ہیں اور گھروں میں پانی داخل ہونے سے لوگوں کی املاک تباہ ہوجاتی ہیں۔ یہ صورتحال صرف عام آدمی کو ہی نہیں بلکہ تجارتی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ، صنعتیں اور مارکیٹیں سڑکوں کے بہتر نظام پر انحصار کرتی ہیں، اور جب سڑکیں ہی پانی میں ڈوب جائیں تو رسد کا نظام متاثر ہوتا ہے، لاگت بڑھتی ہے اور کاروباری نقصانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایمرجنسی سروسز تک متاثرہ علاقوں تک بروقت نہیں پہنچ پاتیں، جس سے مشکلات دوچند ہوجاتی ہیں۔
کراچی کے مسائل کی جڑ اس کی بدانتظامی میں ہے۔ شہر کی بلدیاتی حکومتیں، صوبائی حکومت اور وفاقی ادارے سب مل کر اس شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ منصوبہ بندی میں ربط نہیں، کرپشن عام ہے اور ٹھیکے ایسے افراد یا اداروں کو دیے جاتے ہیں جو کم معیار کا کام کرکے چند ماہ میں سڑکوں کو دوبارہ برباد کر دیتے ہیں۔ برسوں سے آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا لیکن شہری منصوبہ بندی اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکی۔ غیر قانونی آبادیاں نالوں اور برساتی پانی کے راستوں پر بن گئیں اور حکومت نے کبھی سنجیدگی سے ان پر قابو نہیں پایا۔
شہر کی سڑکوں کی حالت اس بدانتظامی کی عکاس ہے۔ جگہ جگہ گڑھے، بیٹھتی ہوئی سڑکیں اور ٹوٹے ہوئے پل عوام کو روزانہ کی آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔ کئی مقامات پر برساتی نالے یا تو موجود ہی نہیں یا پھر ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے، نتیجہ یہ کہ پانی جمع ہوکر پورے علاقے کو جھیل بنا دیتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی جامع ماسٹر پلان ترتیب نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے ہر ترقیاتی منصوبہ ادھورا اور غیر مربوط رہ جاتا ہے۔ سیاسی تبدیلیاں اور مالی بدانتظامی منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دیتی ہیں اور عوام ایک بار پھر بارشوں میں ڈوبتے شہر کا سامنا کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال کا سب سے زیادہ بوجھ غریب طبقہ اٹھاتا ہے۔ ان کے گھروں میں پانی بھر جاتا ہے، پینے کا صاف پانی آلودہ ہوجاتا ہے اور بجلی کے طویل تعطل سے ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے، مزدور روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں اور صحت کے مسائل بڑھتے ہیں۔ بار بار کی مشکلات عوام کے اندر مایوسی اور اداروں پر سے اعتماد کے خاتمے کا باعث بن رہی ہیں۔ کراچی، جسے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے، اپنی بگڑتی حالت کی وجہ سے سرمایہ کاری اور سیاحت دونوں میں اپنی کشش کھو رہا ہے۔
اس تباہ کن صورتحال سے نکلنے کے لیے وقتی اقدامات نہیں بلکہ جامع اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے نکاسی آب کے نظام کی صفائی اور جدید کاری لازمی ہے، تاکہ ہر سال برسات کا پانی شہری زندگی کو مفلوج نہ کرے۔ شہری منصوبہ بندی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، قبضہ مافیا پر قابو پانا ہوگا اور ماحولیاتی توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے نالوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں کو بحال کرنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر ایک آزاد ادارہ تشکیل دینا ضروری ہے جو انفراسٹرکچر منصوبوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنائے۔ صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان تعاون بڑھانا اور مالی وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کراچی کے عوام بار بار یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کب تک بارش ان کے لیے خوشی کے بجائے اذیت بن کر آتی رہے گی؟ حالیہ بارشوں کو ایک وارننگ سمجھتے ہوئے اگر سنجیدہ اور دیرپا اقدامات نہ کیے گئے تو یہ شہر مزید ڈوبتا جائے گا۔ کراچی وہ مستقبل کا خواب دیکھنے کا حق رکھتا ہے جہاں بارشیں زندگی کو سنواریں، بگاڑیں نہیں، اور جہاں ترقی اور خوشحالی کی راہیں پانی میں بہہ نہ جائیں بلکہ اس شہر کے باسیوں کے لیے ایک نئی صبح کی نوید لائیں۔

متعلقہ خبریں