آدھے کراچی پر قبضہ ہے، سندھ کی آدھی سے زیادہ زمینوں پر قبضے ہیں،کونوں سےتصاویر لے کر آ گئے اور کہانیاں سنا رہے ہیں۔15، 15، 20، 20 منزلہ عمارتیں سرکاری زمینوں پر اور سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، ملیر اور یونیورسٹی روڈ پر عمارتیں بنی ہوئی ہیں: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد

کراچی(نمائندہ مقامی حکومت)سرکاری اراضی انکروچمنٹ کیس کی سماعت کے دوران بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان بورڈ آف ریونیو کے سینئر رکن پر برہم ہو گئے، عدالتِ عظمیٰ نے ان کی پیش کردہ رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ یونیورسٹی روڈ پر دیکھیں جعلی دستاویزات پر کتنی کتنی منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ایک عمارت بتائیں جو تجاوزات پر بنی ہو اور گرائی گئی ہو۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے سامنے کہانیاں سنا رہے ہیں، آپ منشی یا بابو نہیں ہیں، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ہیں، یہ لولی پاپ آپ کے افسران آپ کو دیتے ہوں گے، ہمیں مت دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے استفسار کیا کہ کیا حیدر آباد، سکھر اور لاڑکانہ میں کوئی انکروچمنٹ نہیں ہے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب اچھا ہے، سب اچھا ہے، سارے ڈی سیز بیٹھے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے کہا کہ سارے کراچی پر قبضہ ہے، آپ کے 9 کیسز لگے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ یہ سنجیدہ معاملہ ہے، یہ سب صرف اپنے فائدے کے لیے کام کر رہے ہیں، جو کرنا چاہیئے وہ نہیں کیا تو عہدے پر کیوں ہیں؟ تمام اداروں کا یہی حال ہے، کون سے سائے ہیں جن کے لیے یہ کام کر رہے ہیں، انکروچمنٹ کی عدالتیں بنائی ہیں وہاں کام نہیں ہے، یہ بھتہ لے رہے ہیں، اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاس گندے لوگ ہیں۔جسٹس قاضی امین نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے کہا کہ یہ 2 ہفتوں میں کرنے والا کام ہے، آپ ریاست کے ملازم ہیں کسی کے ذاتی ملازم نہیں، آپ اپنے عمل سے بتائیں کہ ان گندے لوگوں سے نہیں ملے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ آدھے کراچی پر قبضہ ہے، کورنگی چلے جائیں، یہ سب آپ کے ریونیو والوں نے بنایا ہوا ہے، یونیورسٹی روڈ پر دیکھیں جعلی دستاویزات پر کتنی کتنی منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ملیر ندی میں گھر بن رہے ہیں، جا کر دیکھیں، ایک انکروچمنٹ پر بنی ہوئی عمارت بتائیں جو آپ نے گرائی ہو، اب تو ریٹ بڑھ گیا ہو گا کہ سپریم کورٹ نے گرانے کا حکم دیا ہے، ابھی گرائیں گے، افسران صرف دفاتر میں بیٹھ کر گدی گرم کرتے رہتے ہیں، کراچی میں کوئی ایک بلڈنگ گرائی ہے تو بتا دیں، 15، 15، 20، 20 منزلہ عمارتیں سرکاری زمینوں پر بنی ہوئی ہیں، سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، ملیر اور یونیورسٹی روڈ پر عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ایئر پورٹ کے پاس زمین آپ کو نظر نہیں آتی؟سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے جواب دیا کہ ہم نوٹس لیتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نوٹس لیتے ہیں آپ نہیں، آپ روزانہ 10 چٹھیاں لکھیں کچھ نہیں ہوتا، یہ کام آپ کے افسران کا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ آخری میٹنگ کب ہوئی تھی، کیا اقدامات کیئے تھے؟سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے جواب دیا کہ سماعت کے اگلے روز ہی تمام افسران کی میٹنگ بلائی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے تو توہینِ عدالت میں آپ کو جیل بھیجیں گے، آپ لوگوں کی خدمت کرنے آئے ہیں، سوکالڈ ماسٹرز کی خدمت کے لیے نہیں، یہ زمین اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے، کام کریں۔عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ عدالت سرکاری زمین، پارکس اور رفاہی پلاٹس سے قبضے ختم کرانے کا حکم دیتی رہی ہے، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو عدالتی احکامات پر سختی سے عمل درآمد کرائیں، سرکاری زمینوں پر سے قبضہ ختم کرا کے 1 ماہ میں رپورٹ دیں، جائیں، کام کریں اور ہمیں بتائیں کہ اب تک کتنی غیر قانونی بلڈنگز گرائی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق سینئر رکن بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی

متعلقہ خبریں