نیویارک تاریخ رقم کرنے کو تیار، زہران ممدانی میئر کے انتخابات میں نمایاں امیدوار بن کر اُبھرے
نیویارک: امریکا کا سب سے بڑا شہر نیویارک نئی سیاسی تاریخ رقم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں میئر کے انتخابات چار نومبر کو ہوں گے۔ انتخابی دوڑ میں تین امیدوار میدان میں ہیں، جن میں ڈیموکریٹک امیدوار زہران ممدانی نمایاں سمجھے جا رہے ہیں۔
زہران ممدانی کا مقابلہ آزاد امیدوار اور ریاست کے سابق گورنر اینڈریو کومو سے ہے، جنہیں ماضی میں گیارہ خواتین کے ساتھ مبینہ دست درازی کے الزامات کے بعد عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا، جبکہ تیسرے امیدوار ری پبلکن پارٹی کے کرٹِس سلیوا ہیں، جو ریڈیو میزبان کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔
تازہ سروے کے مطابق، زہران ممدانی 44 فیصد مقبولیت کے ساتھ سبقت لیے ہوئے ہیں، جبکہ کومو 33 فیصد اور سلیوا 14 فیصدعوامی حمایت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے، اور امیدواروں کے مواقف صدر ٹرمپ سے تعلق، غزہ جنگ پر موقف، قانون نافذ کرنے کی پالیسی، عوامی تحفظ، رہائش اور صحت کے مسائل کے گرد گھوم رہے ہیں۔
زہران ممدانی نے اپنی مہم میں وعدہ کیا ہے کہ کامیابی کی صورت میں گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد، شہر میں مفت ٹرانسپورٹاور چائلڈ کیئر سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا۔
تقریباً 82 لاکھ آبادی پر مشتمل نیویارک شہر پانچ اضلاع — برونکس، بروکلین، مین ہٹن، کوئنز اور اسٹیٹن آئی لینڈ — پر مشتمل ہے۔ شہر کی نسلی ساخت میں سفید فام 31 فیصد، ہسپانوی 28 فیصد، سیاہ فام 20 فیصد اور ایشیائی تقریباً 15.5 فیصد ہیں، جبکہ زیادہ تر آبادی کی عمر 20 سے 60 سال کے درمیان ہے۔
اکتوبر میں ہونے والی قبل از وقت ووٹنگ میں تقریباً چار لاکھ 80 ہزار ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر چکے ہیں، اور نوجوان ووٹرز کی اکثریت ممدانی کی حامی ہے۔
زہران ممدانی فلسطینیوں کی حمایت میں اپنے بے باک مؤقف کے باعث بھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے، تو وہ عالمی عدالتِ انصاف کی ہدایت پر ان کی گرفتاری یقینی بنائیں گے۔
1991 میں یوگنڈا میں پیدا ہونے والے زہران ممدانی کے والدین کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کی والدہ میرا نائر معروف فلم ساز اور آسکر کے لیے نامزد ہو چکی ہیں، جبکہ والد محمود ممدانی کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کی اہلیہ رما دواجی شام سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ ہیں۔
زہران ممدانی اس سے قبل نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ اگر وہ چار نومبر کو کامیاب ہوتے ہیں تو وہ نیویارک شہر کے پہلے مسلم میئر بن جائیں گے — جو نہ صرف ایک تاریخی سنگِ میل ہوگا بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بھی صدر ٹرمپ کے دور کے بعد نئی امید کی کرن ثابت ہوگا۔