ناردرن بائی پاس مویشی منڈی: خریداروں کا بائیکاٹ یا بیوپاریوں کا استحصال؟

اندازہ تھا کہ اس بار ناردرن بائی پاس پر قائم مویشی منڈی بیوپاریوں کے لیے کچھ زیادہ سودمند نہ ہوگی، لیکن یہ کسی نے نہ سوچا تھا کہ بیوپاری اس درجہ استحصال کا شکار ہو جائیں گے کہ نہ صرف منافع، بلکہ اصل سرمایہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

منڈی میں اس سال ٹھیکیداری نظام نے بیوپاریوں پر ظلم کی وہ داستان رقم کی جس پر خاموشی بھی ایک جرم لگنے لگی۔ صرف جانوروں کی انٹری فیس پر نظر ڈالیں تو تصویر صاف ہو جاتی ہے۔ فی جانور 4,500 روپے انٹری فیس لی گئی، جبکہ تقریباً 2.5 لاکھ جانور منڈی میں لائے گئے۔ اس حساب سے صرف انٹری فیس کی مد میں 90 کروڑ روپے کی خطیر رقم اکٹھی کی گئی۔

اس کے علاوہ، 19,000 ٹریلرز کی انٹری پر 5,000 روپے فی ٹریلر کے حساب سے مزید 9 کروڑ روپے حاصل کیے گئے۔ ایک پٹی کا کرایہ 2.2 لاکھ روپے تک پہنچا، جبکہ وی آئی پی بلاک میں اس سے دوگنا کرایہ وصول کیا گیا۔ اوسطاً ایک لاکھ روپے فی بیوپاری جگہ کے لیے لگائیں تو بھی 25 کروڑ روپے صرف جگہ کے کرایہ کی مد میں اکٹھے کیے گئے۔

لیکن ظلم یہیں ختم نہیں ہوتا۔ بیوپاریوں پر زبردستی پانچ ڈرم فی 20 جانور خریدنے کی شرط عائد کی گئی۔ ایک ڈرم کی قیمت 2,500 روپے، اس حساب سے 15 کروڑ روپے صرف ڈرم فروخت کر کے کمائے گئے۔ وہ بیوپاری جو اپنے ساتھ ڈرم لائے تھے، ان سے بھی زبردستی فی ڈرم کی رقم وصول کی گئی۔

پانی، بجلی، چارے، پارکنگ، ٹینٹ، اور دیگر سہولیات کے ٹھیکے مجموعی طور پر 1 ارب روپے میں دیے گئے۔ جن ٹھیکیداروں نے یہ ٹھیکے حاصل کیے، وہ دوگنا منافع کمانے کے عزم سے آئے۔ بجلی کے ٹھیکیدار نے یہ شرط رکھوائی کہ بیوپاری اپنا جنریٹر استعمال نہیںکریں گے تاکہ وہ زیادہ نرخوں پر بجلی فروخت کر سکے۔ چارہ اور کھانے پینے کی اشیاء بھی باہر سے لانے پر پابندی تھی تاکہ بیوپاریوں کو سب کچھ مہنگے داموں منڈی سے ہی خریدنا پڑے۔

نتیجہ؟ بیوپاری روئے، خریدار منہ موڑ گئے۔

بیوپاری اپنی لاگت بھی نہ نکال پائے۔ ایک بیوپاری نے بتایا کہ 40 جانوروں پر اس کا خرچ 17 لاکھ روپے آیا، مگر بازار میں گاہک ہی نہ تھے۔ منڈی میں جانور تھے، مگر خریدار غائب۔ چاند رات کو جب منڈی کو خالی ہونا چاہیے تھا، ہزاروں جانور باقی رہ گئے۔

اس پورے نظام میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (KMC) بھی کسی سے پیچھے نہ رہی۔ منڈی کے خارجی راستے پر صرف دس لڑکوںکو کھڑا کیا، جنہوں نے ہر فروخت ہونے والے جانور پر 500 روپے کی پرچی کاٹی۔ انتظامیہ کے مطابق 2 لاکھ جانور فروخت ہوئے، اور یوں KMC نے 10 کروڑ روپے کی ‘دیہاڑی’ لگا لی—وہ بھی بغیر کسی بڑی سرمایہ کاری کے۔

سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں گیا؟ عوام کا حق حلال کا پیسہ، بیوپاریوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی، اور خریداروں کی قربانی کے جذبے کو کچلنے والا یہ منڈی ماڈل کس کی خدمت کر رہا ہے؟

یہ وہی نظام ہے جس نے سندھ کو پیرس بنانے کا نعرہ لگایا تھا، مگر حقیقت میں بیوپاریوں، خریداروں، اور عام شہریوں کو منافع خور مافیا کے ہاتھوں بیچ دیا۔ جب تک اس نظام کو لگام نہیں ڈالی جاتی، سندھ کی ترقی ایک سراب ہی رہے گی۔

اصل عید تو ٹھیکے داروں، افسران اور کے ایم سی کی تھی — جنہوں نے "ہینگ لگے نہ پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا” کے مصداق کروڑوں روپے کما لیے۔

متعلقہ خبریں