رٹہ تعلیم کا دشمن۔۔۔تحریر : ملک صفدر ضیاء


دوستو آج کی نشست میں پروفیسر محمد سلیم ہاشمی فرماتے ھیں کہ اردو کے بابوں، چاچوں اور ماموں نے حکمرانوں کے دماغ میں ٹھونس ٹھونس کر یہ بات بٹھا دی کہ اردو بڑی تہی دامن زبان ہے، صرف شعر و شاعری کی زبان ہے، کھچڑی ہے، ملغوبہ ہے اور یہ کہ سائنسی علوم وغیرہ کے لئے انتہائی تنگ دامن ہے۔ انہوں نے حکمرانوں کو یہ بھی بتایا کہ یہ ادارہ بنا دو، یہ کرسی ہمیں دے دو، فلاں عہدہ بخش دو تاکہ ہم اردو کو ترقی دے سکیں اس میں ذخیرہ الفاظ کا اضافہ کر دیں۔ جب یہ (زبان) کسی جوگی ہو جائے تو اسے ملک میں لگا دینا۔ ان کے ذہنوں میں اردو کے حوالے سے جو زیادہ سے زیادہ بات آتی تھی وہ یہ تھی کہ اسے ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس قدر چھوٹے ذہنوں کے حامل تھے کہ یہ بات ان کے احاطہ ادراک سے بھی باہر تھی کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے، اس سے ملک کا نظام چلایا جا سکتا ہے۔ انگریزی سے وہ اس قدر مرعوب تھے کہ اس سے نجات پانے کا وہ تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ مقابلے کے امتحانات انگریزی میں لیا جانا ان کے نزدیک عذاب خداوندی کی طرح تھا جس کو ٹالنا، جس سے نجات پانا ممکن ہی نہیں تھا۔آئین میں نفاذ اردو کے لئے پندرہ سال کی مدت رکھوانا ان کا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جو کام پندرہ منٹ میں ہو جانا چاہئے تھا وہ ان بابوں کی مہربانی سے پندرہ سال اور حقیقت میں لا محدود مدت تک پھیل گیا۔
بہرحال یہ سیاپا کرنا تو میری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے اس وقت میں کچھ اور بات کرنا چاہ رہا ہوں۔
ہمارے بچے جیسے ہی اسکول میں پہنچتے ہیں ان کے ذہنوں پر انگریزی کا قفل لگا دیا جاتا ہے۔ جب ان کو ایک ایسی زبان میں تعلیم دینے کا عمل شروع کیا جاتا ہے جو ان کے باپ دادا، ماں نانا، اہل محلہ، بازار، معاشرہ، میڈیا غرض کسی کی زبان نہیں ہے تو دراصل ان کے ذہن کو علم سے دور اور باغی کر دیا جاتا ہے۔ جو زبان ان کی ہے ہی نہیں کیسے ممکن ہے کہ اس میں اسے تعلیم دی جا سکے۔ (کیا دنیا کے کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں ایسا تماشا لگانے کا تصور کیا جا سکتا ہے؟) اپنی زبان میں علم دینے سے ذہن میں خیالات آتے ہیں، تصورات پیدا ہوتے ہیں، سوچ بچار اور غور و فکر کا عمل شروع ہوتا ہے۔ غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے سے ذہن تاریکیوں اور خلاؤں میں بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں ذرا ایک تین چار سال کے بچے کے ذہن سے سوچیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
Ba ba black sheep
Have you any wool
اور
Humpty Dumpty sat on a wall
Humpty Dumpty had a great fall
اور
Twinkle twinkle Little star
How I wonder what you are
اور
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
وہ چھوٹی بہت اور وہ موٹی بہت
اور
اک تھا گیٹو گرے
اس کے دو مور تھے
اور
ہرلی کرلی تھے دو بھائی
اک دن ان کی شامت آئی
اور
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
آپ دیکھیں یہ سب مختلف نظموں کے ابتدائی ٹکڑے ہیں۔
جو اردو میں یا مقامی زبانوں میں ہیں ان کی سمجھ آتی ہے، آنکھوں میں ایک منظر آتا ہے، سوچ اس منظر کے تعاقب میں چل پڑتی ہے بچے کو شروع سے لے کر آخر تک پوری نظم کی سمجھ آتی ہے۔ اس کا ذہن تصورات اور خیالات سے بھر جاتا ہے۔ وہ نظم اس کو یاد بھی جلدی ہو جاتی یے۔ جب کہ دوسری طرف کوئی منظر آنکھوں میں آتا ہے نہ کوئی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ خیالات اور تصورات میں بالیدگی پیدا ہونے کا تو تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بس خلا، تاریکی اور بے بسی۔ شاید آپ نے کبھی محسوس کیا ہو۔ جب بچے ایسی نظموں پر کوئی ٹیبلو پیش کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں بے جان اور چہرہ سپاٹ اور کسی قسم کے جذبات سے عاری ہوتا ہے۔ جب بچے کو یہ علم ہی نہیں کہ اس نظم کا کیا مقصد یا مطلب ہے تو وہ اس پر خاک تاثرات دے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی زیادہ تر نظمیں کسی خیال یا سبق سے تہی ہوتی ہیں اور وہ بے تکے اشعار، بے معنی باتوں اور مہمل کلمات سے آراستہ ہوتی ہیں۔
میں یہ سب رونا کیوں رو رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جب غیر ملکی زبان میں پڑھایا جاتا ہے تو استاد اور طالب علم اس کے ساتھ ہی شارٹ کٹ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ ابتدائی جماعتوں میں بچوں کو سوالات کے جوابات لکھوا دیے جاتے ہیں اور وہ ان کا سو فیصد رٹا لگا لیتے ہیں۔ اسی لئے ان بچوں کے امتحانات میں نوے سے سو فیصد نمبر آتے ہیں۔
ان بچوں کے اتنے نمبر انا کسی ذہانت کی دلیل نہیں بلکہ دماغ سے کام نہ لینے کی نشان دہی کرتے ہیں۔
رٹے کی عادت کو مزید پختہ کرنے کے لئے گائیڈز، ٹیسٹ پیپر اور کیز چھاپی جاتی ہیں۔ ٹیوشن سنٹر اور اکیڈمیاں بھی رٹے کی عادت کو پختہ کرنے کا کام کرتی ہیں۔ میں لاہور کے ایسے دو بڑے سکول سسٹمز کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جہاں اساتذہ کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ جو میٹیریل تمہیں پڑھانے کے لئے دیا جا رہا ہے اس کو بچوں کو سو فی صد رٹواؤ۔ اور بچوں کو بتا دو کہ اگر اس سے ہٹ کر جواب لکھا تو تمہیں کوئی نمبر نہیں دیا جائے گا۔
اس سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال ریاضی کی تعلیم کی ہے جس کو انگریزی میں رٹوایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچوں میں خود سے سوال حل کرنے کی، مسئلوں کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔ بیانیہ سوالات حل کرنا ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہا۔ اس طرز عمل کی وجہ سے پاکستان میں علم ریاضی کی موت واقع ہو چکی ہے۔
آپ اپنے جس بچے کو زیادہ نمبر لینے کی وجہ سے بہت ذہین گردانتے ہیں اور گلی محلے میں اس کی مثالیں دیتے ہیں دراصل وہ ایک رٹو طوطا بن چکا ہوتا ہے۔
آئیے میرے ساتھ آواز بلند کریں اپنی نسلوں کو، اس ملک کو غیر ملکی زبان سے ہونے والی تباہی اور بربادی سے بچانے کی کوشش کریں۔ جان لیں کہ اس ملک پر جس قدر بھی ذلت اور خواری مسلط ہے، دو نمبر ٹھگ جس طرح اس ملک پر قابض رہے ہیں جس طرح یہ ملک روز بروز بدحالی اور پسماندگی کا شکار ہو رہا ہے اس سب کا سبب اس ملک ہر انگریزی کے جبری، غیر فطری، غیر قانونی اور غیر آئینی تسلط کے سوا کچھ اور نہیں۔
مجھے لوگوں کے، پسے ہوئے طبقات کے ہاتھ اس صورت حال کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے والوں کے گریبانوں کی طرف بڑھتے نظر ا رہے ہیں کیا ان کو اس بات کا احساس ہے؟
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو
وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
اے نیند کے ماتو لب کھولو
چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو تم سے اٹھے گا
کچھ دور تو نالے جائیں گے
بڑھتے بھی چلو کٹتے بھی چلو
بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں
تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔

متعلقہ خبریں