ڈیجیٹل سٹیزن اور لالہ نعیم
لالہ نعیم میرے یونیورسٹی کے سینئردوست اور بھائی ہی نہیں بلکہ انتہائی ذہین اورزرخیز دماغ کے مالک ہیں۔وہ اس وقت بھی لالہ ہی تھے جب ہم انیس سوننانوے میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں زیرتعلیم تھے۔وہ سب کے ہی لالہ ہیں۔یونیورسٹی دور سے ہی نئے نئے آئیڈیازنہ صرف سوچتے تھے بلکہ ان کوعملی جامہ بھی پہنانے کے عادی تھے۔ گزرے بائیس سالوں نے نہ صرف انہوں نے اپنے یونیورسٹی دور کے دوستوں سے رابطہ نہیں ٹوٹنے دیا بلکہ گاہے گاہے ان سے ملاقاتوں اور گپ شپ کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال اور ایک شہری کے طورپرڈیجیٹل ورلڈ میں ہمارے حقوق اورذمہ داریاں ان کا نیا پراجیکٹ اور پیشن ہے۔ لالہ جی اس ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ انقلاب شتر بے مہار نہ ہوبلکہ کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ آئے۔ڈیجیٹل سپیس میں اخلاقیات اورقوانین کا خیال رکھا جائے۔ ان کی خواہش کے کہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیامین اسٹریم میڈیا کی طرح ایک ذمہ دار انڈسٹری کا روپ دھار جائے۔وہ یہ آئیڈیا سوچنے اورپھر اس انقلاب کی جدوجہدکرنے میں سب سے آگے ہیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک تنظیم ڈیجیٹل میڈیا سوسائٹی آف پاکستان کے نام سے بنارکھی ہے۔منگل کے روزلالہ جی نے بطور ڈیجیٹل سٹیزن ہمارے حقوق اور ذمہ داریوں کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ یہ سیمینار اپنی نوعیت کا منفرد اور پہلا سیمینار تھا جس میں ڈیجیٹل ورلڈ میں کام کرنے اورسوشل میڈیا کے استعمال کے دوران حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کی بھی بات کی گئی۔ کانٹینٹ بنانے کے لیے سوشل اخلاقیات کی بات کی گئی۔ ایک بہترین اور ذمہ دارڈیجیٹل سوسائٹی بنانے کے لیے قوانین کے احترام کی بات کی گئی۔
ڈیجیٹل اسپیس میں صرف اپنی رائے ہی نہیں بلکہ دوسروں کی رائے اور خاص طورپر مخالف نقطہ نظر سننے اور گالی کی بجائے دلیل کے ساتھ اس کا جواب دینے کی بات کی گئی۔اس سمینار میں دنیائے صحافت کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا سے جڑے بہت سے افراد نے شرکت کی۔ حسن نثار صاحب چیف گیسٹ تھے۔ اس کے علاوہ سی پی این ای کے صدرجناب کااظم خان صاحب نے خصوصی طورپرشرکت کی بلکہ وہ اس سیمنار کے منتظم بھی تھے۔ کاظم خان بھی لالے کے کلاس فیلواور میرے ایک سال سینئرہیں یونیورسٹی میں۔ مجھے وقت سے پہلے ہی عملی صحافت کی طرف دھکیلنے میں کاظم خان صاحب کا کردارسب سے نمایاں تھا۔ میں ابھی ایم اے فرسٹ ایئرمیں ہی تھا کہ کاظم خان صاحب اور لالہ نے وقار گیلانی صاحب کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ روزنامہ انصاف میں لے جائے یوں میرے صحافتی کیریئر کا آغازہوا۔سیمینارمیں برابری پارٹی کے سربراہ اور معروف گلوکار جواد احمد صاحب بھی تشریف لائے۔جواد احمدنے اپنی برابری پارٹی کا نقطہ نظرپیش کیا جس سے ہم سب واقف ہیں لیکن انہوں نے ایک بہت ہی اچھی بات کی کہ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہمارے اداروں خاص طوپرپاک فوج کے خلاف جو منظم مہم چلائی جارہی ہے اس کا نہ صرف خاتمہ ہونا چاہئے بلکہ اس کے آگے مستقل بندباندھنا ضروری ہے۔ موٹیویشنل اسپیکرقاسم شاہ نے بھی سوشل میڈیا میں اخلاقیات اوردیانتدار ہونے کی بات کی۔ سیمینار کے سامعین میں ٹک ٹاک سے لیکریوٹیوب تک سوشل میڈیا سے وابسطہ نوجوان شامل تھے۔ جب کہ سینیئر صحافیوں اورمختلف ٹی وی چینلزاوراخبارات سے وابسطہ لوگوں کی بھی کثیرتعداد موجود تھی۔ روزنامہ طاقت کے ایڈیٹر مرحوم رحمت علی رازی کے فرزند جناب اویس رازی صاحب بھی تشریف لائے۔لاہور پریس کلب کے صدراعظم چودھری نے بھی خطاب کیا اورانہوں نے لالہ نعیم کی ڈیجیٹل سوسائٹی سے مل کرلاہور کے کارکن صحافیوں کے لیے ایک ڈیجیٹل پراجیکٹ لانے کی یقین دہانی کروائی جس کا مقصد بے روزگار ہوجانے والے صحافیوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرناتھا۔ ایسے پراجیکٹس کی حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹراورلاہوررنگ کے سربراہ جناب ہمایوں سلیم بھی اس سیمینار کے منتظمین اور روح رواں تھے۔ انہوں نے بہترین انتطامات کرنے اور سامعین کے لیے اچھی گفتگوکرنیوالوں کا انتظام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس سارے فورم اور سیمینار کا مقصد اپنے اداروں کے خلاف جاری نفرت اور منفی مہم کو ختم کرنا ہے۔سوشل میڈیا پرجو اداروں کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے اس کا مقابلہ کرنا بھی ہمارے ڈیجیٹل شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہی مقصد لے کر لالہ نعیم میدان میں ہیں۔ اس سمینار میں اینکر عمران ریاض بھی مدعو تھے انہوں نے بہت سی باتیں کیں سپیکر کا اس ایشوپر ایک مخصوص نقطہ نظر اور سوچ بھی نظر آئی ۔ ان کی تقریر میں سے مجھے بعض چیزوں پراختلاف ہے لیکن یہ فورم ایسی بحث کے لیے تھا ہی نہیں اس لیے وہ ایک مقررکے طورپرآئے اور اپنی تقریرکرکے چلے گئے۔ مگر جو سب سے اچھی بات انہوں نے کی کہ میں بھی چاہتا ہوں کہ کسی کو جرآت نئی ہونی چاہیے کہ وہ ہمارے اداروں کے خلاف بات کرے ۔ جیسے کہ اس سیمینار کا مقصد ڈیجیٹل شہری کے طورپر ہماری ذمہ داریاں اور فرائض تھے تو تقریروں کا فوکس بھی اسی تعمیری کام پر ہی رکھا گیا۔
یہ سیمینار ایک اچھے مقصد کا بہترین آغاز ہے۔ ہماری ڈیجیٹل سپیس بہت زیادہ آلودہ ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بڑے چھوٹے کا کوئی لحاظ نہیں۔ اخلاقی اقدار سرے سے غائب۔ گالی سب سے بڑااور بدقسمتی سے پہلاہتھیار بن چکا ہے۔ اس کوتبدیل کرکے ہمیں اپنی ڈیجیٹل سپیس اور سوشل میڈیا کو تہذیب کے دائرے میں لانا ہے کہ اس کے بغیر اس فورم کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔یہ بہت بڑا کام اور عظیم مشن ہے جس کا بیڑالالہ نعیم ثاقب نے اٹھایا ہے۔ آپ بھی لالے کا ساتھ دیں تاکہ ہم سوشل میڈیا کو کچھ بہترکرسکیں۔ سوشل میڈیا صرف گالی گلوچ، نفرت اور تشدد کا ذریعہ بننے کے بجائے تعمیری بحث کا فورم بن جائے۔ لالہ جی ایک اچھے کام کا آغازکرنے پرآپ کا شکریہ۔لگے رہیں کہ مستقبل اسی ڈیجیٹل میڈیا کا ہے۔