ڈیجیٹل میڈیا اور ای کامرس
دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی گزشتہ 10 سالوں میں ڈیجیٹل میڈیا نے خاصی ترقی کی ہے ۔ نامساعد حالات ، حکومتی سرپرستی نہ ہونے اور سہولیات کے فقدان کے باوجود پاکستان کا شمار ڈیجیٹل میڈیا کوبطور ’’صنعتی ہتھیار ‘‘ استعمال کرنے والے ممالک
میں سر فہرست ہے۔ وطن عزیز میں لاکھوں افراد ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے کمائی کر تے ہوئے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان نے فری لانسنگ میں اپنے سے کئی گنا زیادہ افرادی قوت کے حامل ہمسایہ ملک بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ فری لانسنگ میں امریکہ، برطانیہ، برازیل اور پاکستان بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر موجود ہیں جبکہ بھارت کا نمبر 7 واں ہے۔ ہزاروں پاکستانی فری لانسرز مختلف خدمات آن لائن فراہم کر رہے ہیںاور یہ خدمات آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر فراہم کر سکتے ہیں یا حاصل کر سکتے ہیں۔ آن لائن بزنس نے حدود و قیود سے آزاد ہو کر ہر شخص کو ترقی کے برابر مواقع فراہم کئے ہیں ۔ آن لائن تجارت یا ای کامرس پاکستان میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے جس میں اشیاء و خدمات کی فراہمی یا خرید و فروخت کو گھر بیٹھے ممکن بنایا جاتا ہے ۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب صرف وہی مصنوعات اپنا وجود برقرار رکھ پائیں گی جو صارف کی جیب اور دل کو بھائیں گی۔ اس وجہ سے آن لائن شاپنگ پورٹل تیزی سے مارکیٹ کا شیئر حاصل کرتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریٹیل مارکیٹ بھی صارفین کو گھر بیٹھے مصنوعات کی فراہمی کی طرف راغب دکھائی دے رہی ہے۔ای کامرس لوگوں کی معاشیات کو بہتر بنانے کے ساتھ مسابقتی انٹرپرائز کی تعمیر اور عالمی تجارت میں اپنا حصہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگلے 30 سالوں میں 130 ملین افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے معاملے میں ای کامرس کا بزنس اہم کردار ادا کرے گا ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ای کامرس نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان طبقہ جو بیروزگاری کے اس دور میں ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے در بدر ٹھوکریں کھا رہا تھا اب ای کامرس یا دیگر ڈیجیٹل میڈیا بزنسز کی طرف توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان میں ’’آن لائن‘‘ تجارت تیزی سے پھل پھول رہی ہے اور کئی لوگ نوجوانوں اور بیروزگار افراد کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے رہنمائی فراہم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک ایسا ہی نام فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان عثمان چوہدری کا ہے جس نے آن لائن تجارت کے گر سکھا کر کئی نوجوانوں کی زندگی بدل دی ہے۔2016
میں BS آئی ٹی کرنے کے بعد عثمان چوہدری نے روایت کے برعکس نوکری کی تلاش پر ڈیجیٹل میڈیا میں غوطہ زن ہونے کو ترجیح دی اور اپنے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کا مستقبل بھی سنوار گیا۔ ڈراپ شپنگ، سرچ انجن آپٹیمائزیشن (ایس ای او) اور ایمازون مارکیٹنگ پرعبور رکھنے والے اس نوجوان نے 6 سال کے قلیل عرصے میں کامیابی کو بلندیوں کو چھو لیا ہے جس کا سہرا وہ پاکستان کے معروف ڈیجیٹل میڈیا استاد ’’تنویر ناندلہ‘‘ کے سر سجاتے ہیں۔ تنویر ناندلہ کو ڈیجیٹل دنیا میں ’’ڈاکٹر ویب‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور عثمان چوہدری جیسے دنیا بھر میں ان کے ہزاروں شاگرد موجود ہیں۔
عثمان کہتے ہیں کہ ڈگری لینے کے بعد در بدر ٹھوکریں کھا کر چند ہزار روپے کی نوکری کرنے سے اپنا کاروباربالخصوص ’’ای کامرس‘‘ کرنا بہتر ہے۔ سخت محنت اور اچھی ڈائریکشن سے آپ اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔ ویسے بھی نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’تجارت میں برکت ہے‘‘ اور یہ ای کامرس تجارت کی ایک جدید ترین شکل ہے۔محنتی اور قابل افراد جگہ جگہ خوار ہونے کی بجائے عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ڈیجیٹل ہنر‘‘ کی طرف توجہ دیں ۔ ہنر مندی کبھی نہیں خسارے میں نہیں لے جائی گی۔
کئی لوگ ای کامرس بارے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ آن لائن فراڈ ہے۔ ای کامرس کو سب سے زیادہ نقصان آن لائن فراڈ کرنے والوں نے پہنچایا ہے جو محنت کی بجائے ’’شارٹ کٹ‘‘ استعمال کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایما زون نے پاکستان کے تقریباََ 12 ہزار اکائونٹس کو بند کر دیا ہے اورفراڈ کی اس شرح کو دیکھتے ہوئے وہ ایک بار پھر پاکستان سے ’’بوریا بستر ‘‘ سمیٹنے کے چکر میں ہیں۔ ای کامرس کو مزید پروان چڑھانے کیلئے ’’آن لائن‘‘ فراڈ جیسے عوامل کی بیخ کنی کرنا ہوگی۔ دیگر شعبوں کی طرح ای کامرس بھی حکومتی سرپرستی کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں قوانین بنانا، ان پر عملدرآمد کروانا،تربیتی ماحول اور آن لائن روزگار کے مواقع بڑھانے کی ذمہ داری نجی شعبہ سے زیادہ ارباب اختیار کی ہے۔ پاکستان 2022 میں بھی پے پال ، علی پے جیسے انٹرنیشنل پے منٹ گیٹ ویز سے محروم ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ای کامرس مارکیٹ کافی مسائل کا شکا رہے۔ گزشتہ حکومت ان اس موضوع پر کافی کام کیا تھا لیکن اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی یہ صنعت نظر انداز ہونا شروع ہو گئی۔مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت کی شرح ویسے ہی خاصی بڑھ چکی ہے۔ ایسے میں شہریوں کو روزگار کمانے کا جو آسان اور قابل عمل راستہ ہے اس پر چلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ارباب اختیار کو ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اس شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔