مالیاتی اور انتظامی بے قاعدگیاں، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز تباہی کے دہانے پر آگیا
سندھ حکومت کے منظور کردہ بلدیاتی قوانین کی بدولت کے ایم سی کے تمام شعبوں کا آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔
بدترین بلدیاتی مسائل کے شکار کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کا تاج پہنے مرتضیٰ وہاب کو چند دن ہی ہوئے ہیں کہ مسائل کا انبار ان کے سامنے لگ گیا،کے ایم سی کے ماتحت ادارے وینٹی لیٹر پر آچکے ہیں۔
کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز میں سنگین نوعیت کی مالیاتی ،انتظامی اور طبی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا جس کے باعث اسپتال شدید انتظامی اورطبی بحران کا شکار ہوگیا جس کا خمیازہ کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے جب کہ دل کے عارضے میں مبتلا اسپتال آنے والے مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اسپتال کے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب سے استدعا کی ہے کہ وہ فوری طور پر اسپتال میں ہونے والی بے قاعدگیوںکی تحقیقات کرائیں تو ان کو خود اندازہ ہوجائے گا،اسپتال کی موجودہ انتظامیہ نے دانستہ طور پر وینٹی لیٹراور انجیوگرافی کی مشینوں کو جان بوجھ کر کیوں خراب کیا، اسپتال میں دانستہ طور پر دواؤں کا بحران کیوں پیدا کیا گیا۔
باخبر ذرائع نے اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت چلنے والا امراض قلب کا سب سے بڑا اسپتال کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز شدید انتظامی اور طبی بحران کا شکار ہوگیا۔
امراض قلب اور شدید تکلیف میں مبتلا کراچی کے دور دراز علاقوں سے مفت علاج کرانے کی غرض سے اسپتال آنے والے مریض علاج و معالجے کی ناقص صورتحال کے باعث شدید پریشان ہیں، روزانہ سیکڑوں مریض علاج کرانے اسپتال آتے ہیں ،ان مریضوں کی پریشانی کا کوئی پرسان حال نہیں،اسپتال میں انجیوگرافی اور وینٹی لیٹرمشینیں خراب پڑی ہیں۔
انجیوگرافی کے لیے مریضوں کو دوسرے اسپتال بھیجا جارہا ہے،مفت علاج کرانے کی غرض سے اسپتال آنے والے مریض نجی اسپتالوں میں انجیوگرافی کرانے پر مجبور ہیں،کے آئی ایچ ڈی کی ایگزیکٹوو ڈائریکٹر سمیت دیگر کنسلٹنٹ مریضوں کو انجیوگرافی ان نجی اسپتالوں میں کرانے پر مجبور کرتے ہیں جہاں وہ خود پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں،اسپتال میںدواؤں کی بھی شدید قلت ہے۔ دواؤں کی عدم دستیابی کے باعث مریض دوائیں باہر مختلف بازاروں سے خریدنے پر مجبور ہیں۔
کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر رفعت سلطانہ کا ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انجیوگرافی کی مشینیں ایک ماہ سے خراب ہیں، انجیوگرافی کی مشینوں کے 2 پرزے سنگاپور سے آئیں گے یہ معاملہ ابھی پروسس میں ہے۔ پرزے آنے کے بعد مشینیں فعال ہوجائیں گی، مشینیں خراب ہونے کی وجہ سے مریضوں کو انجیوگرافی کے لیے دوسرے اسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے۔
ڈاکٹر رفعت سلطانہ کا کے آئی ایچ ڈی میں آنے والے مریضوں کی کورنگی روڈ پر واقع نجی کلینک میں انجیوگرافی کرنے سے متعلق سوال پر کہنا تھا کہ میں کورنگی روڈ پرنجی اسپتال میں بھی کام کرتی ہوں اس لیے میں اپنے مریضوں کو ان کی سہولت کے پیش نظر یہ مشورہ دیتی ہوں کہ اگر مجھ سے علاج کرانا ہے، میرے نجی کلینک میں آجائیں ، مجھ سمیت کے آئی ایچ ڈی کے مختلف کنسلٹنٹس ہیں جو اپنی مرضی سے اپنے مریضوں کی دوسرے اسپتالوں میں اپنے مریضوں کے پروسیجرز کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے آئی ایچ ڈی میں کل پانچ انجیوگرافی کی مشینیں ہیں جن میں سے دو بہت پرانی ہیں اور اپنی مدت پوری کرچکی ہیں۔ عاشورہ کے بعد انجیوگرافی بھی شروع کردی جائے گی، اسپتال میں دواؤں کی قلت کے حوالے سے انھوں نے دواؤں کی قلت کا ذمے دار سندھ حکومت کو قراردیدیا اور کہا کہ2011 سے حکومت سندھ کی جانب سے دوائیں آئی ہی نہیں ہیں، حکومت دوائیں نہیں دے رہی تھی، ہم اسپتال کی فارمیسی میں اپنے پیسوں سے خرید کر دوائیں بھرتے ہیں، جو دوائیں نہیں ہوتیں وہ مریض باہر سے خریدتے ہیں،ہم نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو اسپتال کے تمام مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا ہوا۔
اسپتال کے ڈاکٹرز نے ایڈمنسٹریٹرکراچی سے اپیل کہ ہے کہ وہ اسپتال میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرائیں تو سنسی خیز انکشافات ہوں گے اور ان کو معلوم ہوگا کس طرح اس اسپتال کو تباہ کیا جارہا ہے۔