لاہور( نمائندہ مقامی حکومت) وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر پنجاب کی جیلوں کے نظام کو جدید، شفاف اور انسانی حقوق کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کیلئے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے "پنجاب پرزنز اینڈ پرزنرز ایکٹ 2025” کا مسودہ تیار کرلیا ہے، جو 1894 کے پریزنز ایکٹ اور 1900 کے پرزنرز ایکٹ کو ختم کرکے ایک نئے اور ہمہ گیر قانونی ڈھانچے کی بنیاد رکھتا ہے،نئے قانون کے تحت صرف روایتی جیلیں ہی نہیں بلکہ بورسٹل انسٹیٹیوشنز، نابالغوں کی بحالی کے مراکز اور عارضی جیلوں کے انتظامات بھی شامل ہیں، سیکرٹری داخلہ پنجاب نورالامین مینگل نے بتایا کہ پریزن ویلفیئر فنڈبھی قائم کیا جائے گا،مجوزہ قانون قیدیوں سے متعلق ریاستی رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے ۔ دستاویزات کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے تیار کردہ اس مجوزہ قانون میں جیلوں کو محض قید و بند کے مراکز کے بجائے تربیت و اصلاح کی درسگاہیں تصور کیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت صرف روایتی جیلیں ہی نہیں بلکہ بورسٹل انسٹیٹیوشنز، نابالغوں کی بحالی کے مراکز اور عارضی جیلوں کے انتظامات بھی شامل ہیں، جو ایک مربوط اور واضح کمانڈ اسٹرکچر کے تحت ہوم ڈیپارٹمنٹ کے دائرہ کار میں آئیں گے۔ آئی جی جیل خانہ جات سے لے کر سپرنٹنڈنٹس اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس تک تمام افسران کے اختیارات اور ذمہ داریاں اس قانون میں باقاعدہ طور پر متعین کی گئی ہیں۔نئے قانون کا سب سے جدید اور انقلابی پہلو "پرزنر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (PMIS)” ہے جو قیدی کے داخلے سے لے کر نفسیاتی جانچ، علاج، عدالت میں پیشی، تربیتی سرگرمیوں، نظم و ضبط کی کارروائیوں اور سزا میں کمی تک ہر مرحلے کا ریکارڈ ڈیجیٹل اور حقیقی وقت میں محفوظ کرے گا۔تاریخ میں پہلی بار جیلوں کے بیرونی معائنہ کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ ہوم سیکریٹری کی نگرانی میں ایک آزاد ڈائریکٹوریٹ آف مانیٹرنگ قائم کیا جائے گا جو قیدیوں کی فلاح، طبی سہولیات، صفائی، سیکیورٹی اور قانونی ضوابط پر باقاعدہ جائزہ لے گا۔ اندرونی نگرانی کیلئے انسپکٹریٹ آف پریزنز کا نظام بھی برقرار رہے گا، لیکن بیرونی نگرانی کے ذریعے شفافیت اور جوابدہی کی ایک نئی مثال قائم ہوگی۔قانون میں ہائی سیکیورٹی زون، خطرناک قیدیوں کا انتظام، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے، طبی بنیادوں پر منتقلی، عدالتی پیشی، خاندانی ملاقاتوں اور ازدواجی رہائش جیسے پیچیدہ معاملات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت غیر ملکی قیدیوں کی منتقلی اور بیرون ملک قید پاکستانیوں کی وطن واپسی کا بھی جامع طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔مجوزہ قانون کے مطابق ضعیف العمر، معذور، خواتین اور ذہنی امراض کے شکار قیدیوں کیلئے مخصوص سہولیات، علیحدہ رہائش اور نفسیاتی جانچ کے بعد ہر تین ماہ بعد ان کی صحت اور ذہنی حالت کا جائزہ لیا جائے گا۔صوبائی سیکرٹری داخلہ پنجاب نورالامین مینگل نے بتایا کہ سے 90زائد شقوں پر مشتمل یہ مجوزہ قانون صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ قیدیوں سے متعلق ریاستی رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے۔ یہ قانون سزا کے تصور کو اصلاح کی جانب لے جاتا ہے، خفیہ داری کو شفافیت سے بدلتا ہے اور ریاستی غفلت کو انسانی ہمدردی سے تبدیل کرتا ہے۔