آسیہ بی بی کی رہائی پر سلمان تاثیر،شہباز بھٹی کا جنت سے خط ۔۔۔ تحریر: محمد ثاقب چوہدری
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا اکثر غلط استعمال ہوتا رہا ہے، مدعی ملزم کے ساتھ ذاتی اختلاف کی لڑائی کو مذہبی رنگ دے کر مقدمہ درج کروا دیتے ہیں۔1990 کے بعد سے کم از کم 62 افراد کو توہین مذہب کا الزام لگا کر ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے جن میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی شامل ہیں۔
لاہور کے نواحی شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی توہین مذہب کے مقدمہ میں 8 سال بعد جیل میں قید کے بعد 31 اکتوبر 2018 کو رہا ہو گئیں۔
آسیہ بی بی کی رہائی پر سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی یقیناً بہت خوش ہیں جنہیں آسیہ کی بے گناہی کیلئے آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ آسیہ کی رہائی کی خوشی میں دونوں نے گزشتہ روز جنت کے ایک باغ میں دعوت کا اہتمام کیا اور خوب خوشی منائی، اس دعوت کے آخر میں انہوں نے آسیہ کو ایک خط بھی لکھا جسے میں من و عن تحریر کر رہا ہوں۔ (یہ ایک تصوراتی خط ہے)۔
پیاری آسیہ! آج ہم بہت خوش ہیں کیونکہ تم پر توہین مذہب کا لگایا گیا جھوٹا داغ دھُل گیا ہے، تم رہا ہو گئی ہو، تم واپس اپنے بچوں سے مل گئی ہو، آج تمہاری خوشی دیدنی ہوگی، اسی خوشی میں ہم نے جنت میں ملے اپنے باغ میں ایک دعوت رکھی جہاں ہم نے تمہاری رہائی کی خوب خوشی منائی، ہم نے توہین مذہب کے الزام میں مارے گئے درجنوں لوگوں کو بھی مدعو کیا تھا، وہ بھی مسرور تھے، ہم سب نے دودھ کی نہر سے شیریں دودھ پیا، شہد کھائی، انواع و اقسام کے پھل بھی تناول کئے، ہم خوش ہیں کیونکہ ہماری اٹھائی گئی آواز رنگ لے آئی، ہمارا خون رائیگاں نہیں گیا، آج ہمیں فخر ہو رہا ہے کہ ہم نے ایک اچھے کام کی شروعات کیں، ہم نے مذہب کے نام پر جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کی، تمہاری رہائی کے بعد اس قانون کے غلط استعمال بارے سو بار سوچا جائے گا۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم نے اس قانون کے غلط استعمال کیخلاف لگایا گیا ہمارا پودہ ضرور ایک دن تناور درخت بنے گا۔ ہماری دعا ہے کہ تم سدا خوش رہو، آباد رہو۔
فقط تمہارے بھائی
سلمان تاثیر، شہباز بھٹی