موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں:آری ایف آئی کے زیر اہتمام صحافیوں کیلئے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

اسلام آباد(فیصل اظفر علوی)ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی تغیرات پر کام کرنے والے جڑواں شہروں کے صحافیوں کیلئے Resilient Future International کے زیر اہتمام Strengthening Participatory Organization کے اشتراک سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ورکشاپ میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر گفتگو کی۔ ورکشاپ میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ورکشاپ میں صحافیوں کو پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کے حوالے سے Resilient Future International کے چیف اگزیکٹو، ماہر ماحولیات آفتاب عالم خان نے سلائیڈز کی مدد سے شرکا ء کو سائنسی اور ماحولیاتی صحافت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ماحول کو بہتر بنانے اور آلودگی کے خاتمے میں شعور و آگہی کی فراہمی کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کا اجمالی جائزہ پیش کیا ساتھ ہی ملک میں ماحولیات کے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کیا۔ ملک میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 1990 میں پانی کی قلت کے قریب پہنچنے والے اور 2005 میں پانی کی قلت کی آخری لکیر عبور کرنے والا ملک بن چکا تھا۔اس ضمن میں زرعی اور صنعتی شعبوں میں واٹر انٹینسیو پروڈکشن سسٹم کو واٹر سمارٹ سسٹم میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ حکومت، ماہرین تعلیم، ارکان پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو اجتماعی اور باہمی تعاون سےماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آفتاب عالم کا مزید کہنا تھا کہ صحت، زراعت اور خوراک پر ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیاں براہ راست اثر انداز ہو رہی ہیں۔ 2021 میں ڈینگی کیسز کی توسیع شدہ ٹائم لائن صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اہم اثرات میں سے ایک ہےاور بے ترتیب بارشوں کا بڑھتا ہوا رجحان زرعی پیداوار کونقصان پہنچا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2020 میں مون سون کے موسم میں اوسط سے 41 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ 2021 میں اوسط سے 9 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئےماحولیاتی ماہرین کا کہنا تھا کہ اوزون کی تہہ کو مزید نقصان سے بچا نے کے لیے جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ روکنا ہو گا،سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں کمی کرنا ہو گی، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست کرنے ساتھ ساتھ ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال کے خاتمے کے لیے سخت قانون بنا کر ان کا نفاذ کرنا ہو گا۔اوزون کی باریک سطح انسان کی قوتِ مدافعت کے نظام، جنگلی حیات اور زراعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ موسمی تبدیلوں کے پیش نظر ہمیں اپنے ما حو لیاتی تحفظ کیلیے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے ۔ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ ماحولیات کو بہتر بنانے اور موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر ایسے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ آنے والی نسل صاف اور بہتر ماحول میں زندگی بسر کر سکے ، ہماری آنے والی نسلیں ایک پر فضا ء، آلو دگی سے پاک صاف اور پر امن ماحو ل میں پروان چڑھیں اور موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بھی پہلے تیاری کر کے دفاع کریں ۔
تربیتی ورکشاپ میں ماحولیاتی صحافیوں نے پاکستان میں موسمیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کی تجویز پیش کی تاکہ چیلنجز کے خلاف فوری اور پائیدار ردعمل کو یقینی بنایا جا سکے۔ورکشاپ میں صحافیوں کا کہنا تھا کہ اجتماعی منصوبہ بندی، نفاذ اور نگرانی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان رابطہ کاری کا نظام وضع کیا جائے ۔ورکشاپ کے اختتام پر وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے)کے ڈائریکٹر ماحولیات ، مہمان خصوصی رانا کاشف نے شرکاء میں اسناد تقسیم کیں اور دارالحکومت کی ماحولیاتی ترقی میں سی ڈی اے کے کردار پر روشنی ڈالی اورادارہ استحکام شرکتی ترقی کی نمائندہ ماہر ماحولیات شازیہ شاہین نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف استعداد کار بڑھانےاور مقامی سطح پر کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

متعلقہ خبریں