آئندہ مالی سال 2022-23ء کا 9502؍ ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا جبکہ خسارہ 3798؍ ارب روپے کا ہے
اسلام آباد (نمائندہ مقامی حکومت) آئندہ مالی سال 2022-23ء کا 9502؍ ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا جبکہ خسارہ 3798؍ ارب روپے کا ہے ، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصداور پنشن میں اضافہ کردیا گیا ہے ،موبائل فونز، بڑی گاڑیاں مہنگی ہوگئیں ، زرعی آلات، بیجوں اور سولر پینلز پر ٹیکس ختم اور 30 دوائوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی صفرکردی گئی، کاروباری طبقے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی حد6 لاکھ، زائد آمدنی والوں پر خصوصی اور بینکوں پر سپر ٹیکس عائد ہوگا، پراپرٹی کی خریدوفروخت پر ایڈوانس ٹیکس، نان فائلرز کیلئے جائیداد خریداری پر 5فیصد ایڈوانس ٹیکس، ڈھائی کروڑ سے زائد مالیت کے اضافی مکان پر ٹیکس عائد، بچت اسکیموں کے منافع پر ٹیکس نصف کردیا گیا ہے ، مہنگائی کی شرح کم کرکے 11.5؍ فیصد پر لائی جائے گی،بجٹ میں ٹیکس ریونیو کا ہدف 7004؍ ارب مقررکیا گیا ہے جس میں صوبوں کا حصہ 4100؍ ارب روپے ، نان ٹیکس ریونیو2 ہزار ارب روپے ہو گا، موبائل فونز پر لیوی 100 روپے سے 16ہزار تک عائد ہوگی، پٹرول کوٹہ 40فیصد کم کردیا۔تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال 23- 2022ء کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ، وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 9502ارب روپے ہے ، بجٹ خسارہ 3798ارب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کا 4.9فیصد ہے ، جبکہ صوبوں کو 800ارب روپے کے سرپلس کی ادائیگی کےبعد خسارہ 4598ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہو ں میں 15فیصد اضافہ کر دیا گیا ہےاور ایڈہاک الائونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے،انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد 6؍ لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے، اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقے کیلئے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، دیگر ممالک کی طرح پنشن فنڈ قائم کیا جارہا ہے، مہنگائی کی شرح کم کرکے 11.5فیصد پر لائی جائے گی ، غیر منقولہ جائیداد کے لین دین پر ایک سال تک ہولڈنگ مدت کی صورت میں 15فیصد ٹیکس لاگو ہوگا جو ہرسال اڑھائی فیصد کی کمی کے ساتھ 6سال کے ہولڈنگ مدت کی صورت میں صفر ہو جائے گا، فائلر کے لیے جائیداد کی خرید وفروخت پر ایڈوانس ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر دوفیصد کر دیا گیا اور نان فائلر کے لیے جائیداد کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس بڑھا کر 5فیصد کر دیاگیا ہے، تمام افراد بشمول کمپنیوں اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کی سالانہ 30کروڑ روپے یا زائد آمدن پر 2فیصد ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے ، ، 1600 سی سی اور اس سے زائد سی سی کی لگژری گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کر دیاگیا ہے، بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39فیصد سے بڑھا کر 42فیصد کر دی گئی جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے، کریڈٹ کارڈ ، ڈیبٹ کارڈ اور پری پیڈ کارڈ کےذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے ایک فیصد اور نا ن فائلر ز کےلیے 2فیصد کی شرح سے ایڈوانس اور ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیاگیا ہے، سولر پینل کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے ، ، 200یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بنکوں سے آسان اقساط پرقرضے دیئے جائیں گے ، زراعت کو آسان بنانے کےلیے ٹریکٹرز ، زرعی آلات ، گندم ، مکئی ، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لے لیاگیاہے ، خیراتی ہسپتالوں کو درآمداور عطیات اور 50یا اس سے زیادہ بستروں والے خیراتی اور غیر منافع بخش اسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائز پر مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے ، زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی، زرعی صنعتوں کے سازوسامان ، مشینری اور زرعی شعبے پر قائم صنعتوں کےلیے بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے،وفاقی وزیر خزانہ وریونیو ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا ، وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 5فیصد مقرر کیا گیا ہے، وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کا ہدف 7004ارب روپے اور نا ن ٹیکس ریونیو کاہدف 2ہزار ارب روپے مقرر کیا گیاہے، ایف بی آر ریونیو میں صوبوں کا حصہ 4100ارب روپے رکھا گیا ہے، سود کی ادائیگی کے لیے 3950ارب روپے خرچ ہونگے ، وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) کےلیے 800ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، دفاع کےلیے 1523ارب روپے ، سول انتظامیہ کے اخراجات کےلیے 550ارب روپے ، پنشن کی مد میں 530ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، عوام کی سہولیات کی فراہمی کےلیے مجموعی ٹارگٹڈ سبسڈیز کی مد میں 699ارب روپے رکھے گئے ہیں، بجلی پر سبسڈی کےلیے 570ارب روپے ر کھے گئے ہیں ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کےلیے 364ارب روپے رکھے گئے ہیں ، بی آئی ایس پی کے تحت 90لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کے لیے 266ارب روپے رکھے گئے ہیں ،10ہزار طالب علموں کو بے نظیر انڈر گرایجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کےلیے 9ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے، بے نظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع تک بڑھایا جائے گا، جس پر ساڑھے 21ارب روپے لاگت آئے گی ، 6ارب روپے مستحق افراد کے علاج اور امداد کےلیے بیت المال کے لیے مختص کیے گئے ہیں ، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کےلیے 12ارب روپے ، رمضان پیکیج کےلیےاضافی 5ارب روپے رکھے گئے ہیں، پیٹرولیم شعبے کے بقایا جات کی ادائیگی کےلیے 71ارب روپے رکھے گئے ہیں ، وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گیس نے نئے نرخوں کا جلد اعلان کریں گے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 65ارب روپے مختص کیے گئے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترقیاتی سکیموں کےلیے 44ارب روپے مختص کیے گئےہیں ، ایچ ای سی کے تحت بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع کےلیے پانچ ہزار وظائف مقرر کیے گئے ہیں ، بلوچستان کے ساحلی علاقوں کےلیے الگ سکالرشپ سکیم شامل ہے ،ملک بھر کے طلبا کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر فراہم کیے جائیں گے ، فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کےلیے 21ارب روپے رکھے گئے ہیں ، نوجوانوں میں کاروبار کے فروغ کےلیے پانچ لاکھ تک بلاسود قرضے اور اڑھائی کروڑ روپے تک آسان شرائط قرضے دیئے جانے کی سکیم کا اجراء کیا جائے گا، قرضہ سکیم میں خواتین کا کوٹہ 25فیصد مختص کیا گیا ہے، خواتین کو معاشی خود مختاری کےلیے ہائی ٹیک اور دیگر مہارتوں میں ترجیح بنیادوں پر تربیت دی جائے گی ، ملک بھر میں یوتھ ڈیویلپمنٹ سینٹر قائم کیے جائیں گے، نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کو مربوط کرتے ہوئے گرین یوتھ موومنٹ کا آغاز کیا جائے گا، میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ دینے ، ہر کسی کو قسطوں میں لیپ ٹاپ دینے اور 250منی سپورٹس سٹیڈیم بنانے کےلیے رقم رکھی جائے گی ، نوجوانوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کےلیے انوویشن لیگ کابھی آغاز کیا جائے گا، گیارہ سے 25سال کی عمر کے نوجوانوں کےلیے ٹیلنٹ ہنٹ اور سپورٹس ڈرائیو پروگرام بھی تشکیل دیا گیا ہے، برآمد کنندگان کو ڈی ایل ٹی ایل کے 40ارب50کروڑ روپے بقایاجات کی ادائیگی کی جائے گی بچت سکیموں میںبہبود سرٹیفکیٹس ، پنشنرز بینفٹ اکائونٹ اور شہدافیملی ویلفیئر اکائونٹ پر کی جانیوالی سرمایہ کاری سے حاصل ہونیوالے منافع پر عائدشدہ 10فیصد ٹیکس کو کم کر کے 5فیصد کر دیا گیا ، انفرادی کاروبار اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کےلیے ٹیکس چھوٹ کی بنیادی حد 4لاکھ روپےسے بڑھا کر 6لاکھ روپے کر دی گئی ، چھوٹے ریٹیلرز کےلیے فکسڈ ٹیکس لاگو کیا جائےگا اورٹیکس کی وصولی بجلی کے بلوں کےذریعے کی جائے گی ، یہ ٹیکس 3ہزار روپے سے 10ہزار روپے تک ہو گا، یہ فائنل ٹیکس ہو گااور ایف بی آر چھوٹے ریٹیلرز سے مزید ٹیکس کا تقاضا نہیں کرے گا، پہلے سال کے لئے صنعت اور کاروباری قدر (ڈیپریسی ایشن کاسٹ) میں کمی کو 50 فیصد سے تبدیل کرکے 100 فیصد کر دیا گیا پہلے 50فیصد چارجز کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت تھی اب 100فیصڈ ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ہو گی ،درآمد کےوقت صنعتی اداروں سے حاصل ہونیوالے تمام ٹیکسوں کو ایڈجسٹ کیا جاسکے گا، ایسے تمام افراد جن کے پاس ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد ہے جس کی مالیت اڑھائی کروڑ روپے سے زائد ہے اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5فیصد کے مساوی فرضی آمدن یا کرایہ تصور کیا جائے گا اور اس فیئر مارکیٹ ویلیو پر ایک فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہےتاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی یا رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنی ٰ ہوگا، غیر منقولہ جائیداد کے لین دین پر ایک سال تک ہولڈنگ مدت کی صورت میں 15فیصد ٹیکس لاگو ہوگا ، تمام افراد بشمول کمپنیوں اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کی سالانہ 30کروڑ روپے یا زائد آمدن پر 2فیصد ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے ، 1600 سی سی اور اس سے زائد سی سی کی لگژری گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کر دیاگیا ہے، الیکڑک انجن کی صورت میں قیمت کے 2فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائے گانان فائلر کےلیے ٹیکس کی موجودہ شرح100فیصد سے بڑھا کر 200فیصد کر دی گئی ،بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39فیصد سے بڑھا کر 42فیصد کر دی گئی جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے ، وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس کے نفاذ کو یقینی بنانے کےلیے رہائشی شخص کو متعین کرنے کے معیار میں ترمیم کی گئی ہے صاحب حیثیت افراد کی جانب سے موجودہ سسٹم کا ناجائز استعمال کیا جارہاہے، جس کے تحت وہ کسی بھی ملک کےٹیکس ریذیڈنٹ نہیں ہیں اس لیے پاکستان کو کوئی بھی شہری جو کسی دوسرے ملک کا ٹیکس ریذیڈنٹ نہیں اسے پاکستان کا ٹیکس ریذیڈنٹ سمجھا جائے گا، کریڈٹ کارڈ ، ڈیبٹ کارڈ اور پری پیڈ کارڈ کےذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے ایک فیصد اور نا ن فائلر ز کےلیے 2فیصد کی شرح سے ایڈوانس اور ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیاگیا ہے تاہم یہ ٹیکس ایڈجسٹ ایبل ہوگا ، سولر پینل کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے ، 200یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بنکوں سے آسان اقساط پرقرضے دیئے جائیں گے ، زراعت کو آسان بنانے کےلیے ٹریکٹرز ، زرعی آلات ، گندم ، مکئی ، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لے لیاگیاہے ، خیراتی ہسپتالوں کو درآمداور عطیات اور 50یا اس سے زیادہ بستروں والے خیراتی اور غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائز پر مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے ، ٹیکس دہندگان کی سہولت فراہم کرنے کےلیے تنازعات کے متبادل حل کے میکنزم میں تبدیلی کر دی گئی ہے جس کے تحت 10کروڑ روپے یا زیادہ کی ٹیکس ڈیمانڈ پر تنازعات کا متبادل حل سے فائدہ اٹھا سکے گا، نئے میکنز م کے تحت ٹیکس دہندہ تنازعات کے متبادل حل میں اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے نامزد کر سکتا ہے، دوسرا نمائندہ ایف بی آر افسر اور تیسرا نمائندہ ٹیکس دہندہ اور ایف بی آر کی باہمی رضامندی سے نامزد ہوگا، اس میکنزم کی بدولت تین میں سے دو ممبران ٹیکس دہندہ کی مرضی سے نامزد ہونگے ، فیصلہ اتفاق رائے کی بجائے اکثریت رائے سے ہوگا، وزیر خزانہ نے بتایا کہ زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی جس سے آبپاشی ، نکاسئی آب ، کاشتکاری ، فصلوں کی کٹائی اور اس کی پرسسنگ ، گرین ہائوس فارمنگ اور پودوں کو محفوظ بنانے کے آلات شامل ہیں ، دیگر زرعی صنعتوں کے سازوسامان ، مشینری اور زرعی شعبے پر قائم صنعتوں کےلیے بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، ملک کےصنعتی شعبوں کو فروغ دینے کےلیےمینوفیکچرنگ سیکٹر ز سے متعلق 400 ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ، اضافی کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ریشنلائز کر دیاگیا ہے، بہت سی اشیا ء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم یا ختم کر دیا گیا ، فارماسیوٹیکلز شعبے میں 30سے زائد ایکٹو فارماسیوٹیکلز انگریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دے دیاگیا ہے،م فرسٹ ایڈ بینڈیجز بنانے والی صنعت کے خام مال کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دے دیاگیا ہے، علاوہ ازیں کئی دوسرے شعبوں میں بھی ٹیرف کی چھوٹ اور رعایتیں دی گئی ہیں ، ملک میں 3ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری کا تخمینہ ہے ٹیکس چوری کو روکنے کےلیے جامع پروگرام وضع کیا گیا ہے جس کےذریعے ٹیکس چوری کی ریکوری کی جائے گی۔ نئے وفاقی بجٹ میں درآمدی موبائل فونز پر مزید ٹیکس لیوی عائد کر دی گئی ہے ، بدرآمدی موبائل فونز پر 100 روپے سے16 ہزار روپے تک لیوی عائد کی گئی ہے،بجٹ دستاویز کے مطابق 30ڈالر والے موبائل فون پر 100 روپے ، 30سے 100ڈالر والے فون پر 200 روپے ،101سے 200ڈالر والے فون پر 600 روپے ،201 سے 350 ڈالر والے فون پر 1800 روپے 351 سے 500 ڈالر والے فون پر 4ہزار روپے ، 501 سے 700 ڈالر والے فون پر 8ہزار اور 701 ڈالر سے زیادہ کی قیمت والے فون پر 16ہزار روپے کی ٹیکس لیوی عائد کی گئی ہے ۔