کراچی(نمائندہ مقامی حکومت)کراچی شہر میں سمندری طوفان بائپر جوائے کے باعث متوقع بارشوں کے پیش نظر کے ایم سی بلڈنگ میں سٹی کونسل ہال کے بجائے آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم کو پولنگ اسٹیشن کا درجہ دیا گیا تھا۔پاکستان کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر کی مقامی حکومت سنبھالنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا۔پیپلز پارٹی نے مرتضیٰ وہاب جبکہ جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمٰن کو میئر کراچی کے عہدے پر نامزد کیا تھا۔
نمبرز گیم
سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے 155 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 130 ہے جبکہ پی ٹی آئی 62، مسلم لیگ (ن) 14، جے یو آئی 4 اور تحریک لبیک کی ایک نشست ہے۔میئر کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف) جبکہ جماعت اسلامی کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔
اس طرح پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ارکان کی تعداد 173 ہے جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ اراکین 192 ہیں۔تاہم میئر کے انتخاب کے قبل اس وقت ڈرامائی صورتحال دیکھنے میں آئی جب پی ٹی آئی کے 30 منحرف یوسی چیئرمینز کے گروپ نے اسد امان کو اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کردیا۔پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی ہدایات اور چیئرمین کے بجائے پارلیمانی لیڈر کے فیصلے کو ترجیح دیں گے اور پارلیمانی لیڈر جسے کہے گا اُسے ووٹ دیں گے منع کرنے کی صورت میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔خیال رہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن ناظم آباد سے الیکشن جیت کر سٹی کونسل پہنچے ہیں جبکہ مرتضیٰ وہاب منتخب رکن نہیں ہیں، جنہیں میئر منتخب کرانے کے لیے پیپلز پارٹی نے بلدیاتی قانون میں ترمیم بھی کی تھی۔مذکورہ ترمیم کے خلاف حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت میئر کراچی کے الیکشن پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کا طریقہ کار
پولنگ کے لیے صبح 11 بجے کا وقت مقرر کیا گیا، جو اراکین صبح 9 بجے سے 11 کے درمیان آرٹس کونسل پہنچنے میں کامیاب رہیں گے وہ ووٹ دینے کے حقدار ہوں گے تاہم پولنگ کے عمل کو نجی میڈیا کور نہیں کرسکے گا۔پولنگ ہال میں موجود اراکین کے شو آف ہینڈ (ہاتھ کھڑا کرنے) کے ذریعے میئر اور ڈپٹی میئر کی عہدوں پر امیدواروں کی کامیابی کا فیصلہ ہوگا۔طریقہ کار کے مطابق سٹی کونسل کے اراکین کو اصل شناختی کارڈ کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پہنچنا ہوگا، صبح 10:30 کے بعد آڈیٹوریم کے دروازے بند کردیے جائیں گے۔سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضی وہاب کے اعلان کے بعد انہیں ووٹ دینے والے اپنے ہاتھ کھڑے کریں گے۔اس کے لیے ووٹرز کے نام اردو حروف تہجی کے اعتبار سے پکارے جائیں گے، حامی ووٹر کو آڈیٹوریم کی ایک جانب کر کے گنتی کی جائے گی، ہر رکن ایک رجسٹر میں اپنے نام کے سامنے انگوٹھے کا نشان لگائے گا، ہر رکن دستخط بھی کرے گا اور ان کے انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان بھی لگایا جائے گا۔اس کے بعد جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کے نام کے اعلان کے ساتھ اسی طریقے سے پولنگ ہوگی اور میئر کے الیکشن کے بعد ڈپٹی میئر کا انتخاب بھی اسی طرح ہو گا۔الیکشن کمیشن نے گرفتار یوسی چیئرمینوں کو بھی پولنگ اسٹیشن لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں۔انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت پولنگ اسٹیشن کے اندر ہنگامہ کرنے اور رکاوٹ ڈالنے پر کارروائی ہوگی جبکہ پولنگ اسٹیشن کے 400 میٹر کے دائرے میں انتخابی مہم چلانا غیر قانونی ہے۔
متعلقہ خبریں