عثمان بزدار ناقابل شکست کیوں ؟۔۔۔تحریر: نعیم ثاقب
بھائی جان! تمام اپوزیشن جماعتیں ملکر زور لگالیں، بے شک پی ٹی آئی کے کچھ ارکان اور اتحادی جماعتیں بھی مخالف ہو جائیں،سب طاقتیں اکھٹی ہو جائیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔پچھلے تین سالوں سے ہر چوتھے دن یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ عثمان بزدار جارہا ہے۔ نا وہ گیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بھیج سکتا ہے۔کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے۔وہ مدمقابل سیاستدانوں کے پاس نہیں ہے۔ میاں صاحب بے حد اعتماد اور یقین سے بات کر رہے تھے۔ میاں صاحب رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں، حقیقت پسند اورباکمال انسان ہیں۔ زندگی کی اونچ نیچ کو سمجھتے ہیں۔ رکھ رکھاؤ، وضع داری اور دوستوں کوعزت دینا جانتے ہیں۔بہت زیادہ پریکٹیکل باتیں کرتے ہیں،شاید اس لیے کہ انہوں نے غربت کے دکھ اور خوشحالی کے سکھ دونوں کو دیکھا ہے۔ شیخ صاحب اور میری ان سے چار بجے کی ملاقات طے تھی۔ہم تقریباً دو گھنٹے لیٹ پہنچے، ملازم نے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا ُکہ میاں صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں۔ پانچ دس منٹ انتظار کے بعد اپنی وضع داری کا ثبوت دیتے ہوئے،میاں صاحب آئے اور ہمیں فرسٹ فلور پر واقع اپنے آفس لے گئے۔چائے کے دوران گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا، تو میں نے پوچھا میاں صاحب! آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟۔
میاں صاحب مسکرائے اور کہنے لگے۔“دعا اور صرف دعا“ میں اللہ سے اچھا نصیب اور اس کا فضل مانگتا ہوں۔ بھائی جان! میں تو ہوٹل میں ایک ویٹر تھا۔ بہت پڑھا لکھا اور عقلمند بھی نہیں ہوں۔ پھر آج جو کچھ میرے پاس ہے، وہ نصیب نہیں تو اور کیا ہے؟۔ سارا کھیل مقدر اور نصیب کا ہے۔یہ نصیب ہی ہے،جولوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے حالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہ ان کی تقدیر ہوتی ہے جو ان کے کام سنوار رہی ہوتی ہے۔بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جاتی ہے۔شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔جیسے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہواور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہواللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے“ (سورۃ البقرۃ – 216) —ستمبر 2018 سے پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ کوئی عثمان بزدار وزیراعلی بنے گا ؟ شاید خود عثمان بزدار کو بھی گمان تک نا ہو کہ وہ پنجاب کا سلطان بن سکتا ہے ،بھائی میں اسی لیے سب سے کہتا ہوں، اللہ سے دولت اور علم مت مانگواچھا نصیب مانگو۔میاں صاحب بول رہے تھے اور میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بارے میں سوچنے لگا۔ جس میں بڑے پیسے والے،سیاسی قد کاٹھ والے، پرانی رفاقت، پارٹی کے لیے دولت لٹانے والے بین الاقوامی تعلقات رکھنے والے نام وزیراعلیٰ بننے کے امیدوار تھے، مگر یہ سب“مقدر والے بزدار“ کے سامنے ناکام ہوگئے۔ دولت، رفاقت، مہارت اور پرانی سیاست کسی کا کچھ بھی کام نہ آیا۔
نصیب نے فتح کا”ہما“ عثمان بزدار کے سر پر بیٹھا دیا۔ اس عثمان بزدار کے سر پر جس کو سابق وزیراعلیٰ شاید ملنے کا وقت بھی نہ دیتا ہوں آج وہ”مقدر کا سکندر“ اسی وزیر اعلیٰ کے تخت پر بیٹھا ہے۔ اس کے مقدر نے سب سے طاقتور امیدوار شاہ محمود قریشی کو پچیس سالہ نومولود سیاست دان سلیمان نعیم کے ہاتھوں شکست دلوائی۔ علیم خان کی پارٹی کے لیے کی گئی انویسٹمنٹ بھی بے کار گئی۔ سابقہ اپوزیشن لیڈرمحمود الرشید، یاسمین راشد، چوہدری سرور، اسلم اقبال سب کی وزیراعلیٰ بننے کی کوششیں اور خواہشیں عثمان بزدار کے نصیب کے سامنے بے بس نظر آئیں اور اب یہی حال ان کو ہٹانے والوں کے ساتھ ہوا۔ عزت اور ذلت دونوں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ چاہے تو غنی کو فقیر کر دے یا فقیر کو بادشاہ بنا دے، سب اس کے ہاتھ میں ہے۔سورۃ ال عمران کی آیت نمبر 26 ”آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔اللہ جس کو ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی اور جس مقدر والے کو مالک نواز دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔یہ اس کی عطا ہے اور اسی کا ہی کرم ہے۔ اسی لیے سمجھ دار لوگ رب سے دولت اور شہرت اور علم مانگنے کی بجائے نصیب مانگتے ہیں۔ پشتو کے ولی شاعر رحمان بابا کا ایک شعر ہے رحمان تخت مہ غوارہ، بخت غوارہعقل مند دہ بختیالانو غلامان دہتخت مت مانگو، بخت مانگو اے رحماناکثر عقل مند قسمت والوں کے غلام ہوتے ہیں۔