احتساب سے مستثنیٰ لوگ ۔۔۔ نعیم ثاقب

ہماری زندگی میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے دماغ کے کٹہرے میں بے لاگ،کڑے، شفاف اور حتمی احتساب کا مقدمہ نہیں چلاتے بلکہ دل کی عدالت سے ان کی غلطیوں‘ خامیوں، نادانیوں اور چھوٹی موٹی چالاکیوں کو ہر مواخذے سے استثنیٰ دے دیاکرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے اپنے دماغ کے کمپیوٹر کا سی پی یو بند کرنا پڑتا ہے اوران کو صحیح غلط، اچھے برے اور جمع تفریق کے حساب کتاب سے الگ رکھنا پڑتا ہے۔تب ہی رشتے نبھتے اور تعلق پروان چڑھتے ہیں۔ ورنہ خونی رشتے بھی وقت سے پہلے اپنی موت مر جاتے ہیں، مرشد کہتے کہتے رکے اور میری طرف دیکھا اوربولے لالے کیا تمہیں پتہ ہے یہ کونسے لوگ ہیں؟ یہ ہمارے قریبی رشتے دار ہیں اور ان کے ساتھ اللہ صلہ رحمی کاحکم دیتاہے اور اس کا بڑا اجر ہے۔ یہاں تک کہ اللہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنیوالوں کا رزق اور عمر تک بڑھا دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اوراس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔(صحیح بخاری)
ان لوگوں کے لیے جو پوچھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ مرشد کون ہے تو بتاتا چلوں کہ مرشد کانام نوید کاشف ہے تعلیم انجینئر نگ اور قانون،شوق کتابیں اور انسان پڑھنا، پیشہ سول سروس اور اب ایک بڑے میڈیا گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر، رشتے میں میرے ہم زلف! اور تعلق میں بے تکلف دوست، بھائی،راہبر اور مرشد! – یہ ان کا مختصر سا تعارف ہے ورنہ جو لوگ ان کو جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ان کی شخصیت پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
خیر حسب روایت عید کے روز مرشد نے زبردست عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ لان کاڈیکور لائیٹنگ اور لائیو بار بی کیو وغیرہ کو دیکھ کر کسی خاص مہمان کے لیے بڑے فنکشن کاگمان ہو رہا تھا پر مہمان اور کھانے والے صرف ہم سب فیملی ممبرز ہی تھے۔ حسب عادت مرشد سب کو فرداً فرداً اصرار کرکے کھلا رہے تھے۔ یہ صرف آج ہی کی بات نہیں تھی مرشد گذشتہ کئی سالوں سے اسی طرح حیلے بہانوں سے دعوت کا اہتمام کرکے سب کواکھٹا کرتے زبردستی ہر چیز کھلاتے اپنے ہاتھوں سے منہ میں نوالے ڈالتے، محبت اورمہمان نوازی کے ثواب سمیٹ رہے ہیں پہلے ہر اتوار لاہور کے بڑے کنٹری کلب میں برنچ کے لیے بلاوہ آتا تھا اور اب اللہ نے پوش علاقے میں بڑا گھر دیا ہے تو روٹین پھربھی وہی ہے جب موقع ملتا ہے سب کو اکھٹا کرنے کے لئے کھانے پر اس محبت سے بلاتے ہیں کہ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مرشد یقینا اللہ کے ساتھ”لگا کر بچانے والا“ کاروبار کر کے بے تحاشہ منافع کما رہے ہیں اور اس کمائی کو اپنے ہاتھوں سے خر چ بھی کر رہے ہیں بقول مرشد جو پیسہ خود کمایا ہے اسے خرچ بھی خود کریں اور وہ بھی اللہ کی رضا کے لیے دوسروں پر ورنہ کیا معلوم بعد والے آپ کی کمائی کا کیا کریں۔
کھانے کے بعد حسب معمول میں اور مرشد واک کے لیے نکل پڑے۔گپ شپ کے دوران میں نے کہا مرشد ارد گرد بالکل سناٹا ہے آج لگ ہی نہیں رہا کہ عید ہے۔ لگتا ہے ہر کوئی اپنے اپنے گھر میں عید منا رہا ہے شاید اکھٹے عید منانے کا رواج ختم ہوتا جا رہاہے۔ مرشد کہنے لگے یار تیری بات کسی حد تک ٹھیک ہے۔ ماں باپ زندہ ہوں تو اکھٹے ہونے کی وجہ ہوتی ہے مگر جب چلے جائیں تو خاندان بکھر جاتا ہے۔ اگر خاندان کو اکٹھارکھنا ہے تو کسی ایک کو بڑا بننا پڑتا ہے کسی ایک کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ خود دھوپ رہ کر سب کو چھاؤں دینے والا درخت بننا پڑتا ہے۔ اپنی خواہشیں قربان اور دوسروں کی خواہشوں کا احترام کرنا پڑتا رشتے نبھانے کے لئے بے کار کی ضد،جھوٹی انا کو چھوڑنا،رویوں کو برداشت اور شکوے شکائتیں کو دور کرنا پڑتا ہے اور پھر جب یہ سب آپ دکھاوے اور خودنمائی کی بجائے اللہ کی رضا کے لیے کرو تو مالک اس کا بے حساب اجردیتا ہے اور مجھے تو رشتے جوڑنے کی وجہ سے مالک نواز رہا ہے اور میرے رزق میں اضافہ کر رہاہے۔ مرشد کچھ رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آپ کے حسن سلوک کے باوجود آپ سے اچھا سلوک نہیں کرتے تو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے پوچھا! مرشد نے قہقہلگایا اور کہنے لگے یہی تو اصل امتحان ہے بہت سے رشتے دار ہمیں پسند نہیں کرتے کسی کے ساتھ ہمیں اختلاف ہوتا ہے مگر بہت کچھ نظرانداز کرکے تعلق جوڑے رکھنا پڑتا ہے یہی صلہ رحمی ہے اوراسی کا حکم دیا گیا ہے۔
جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے:
ترجمہ: ”صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ نہیں ہے جوبرابر کا معاملہ کرتا ہے بلکہ اصل رحم کرنیوالا شخص وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔“(بخاری: 5991)
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے بیان فرمایا:
”کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے گی سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے۔“
(رواہ ابو داؤد وصححہ الالبانی)
مرشد بول رہے تھے اور میں ان کے ساتھ چلتے چلتے ضمیر کی عدالت میں اپنا محاسبہ کرتے سوچ رہا تھا کہ آج تک میرے دل کی عدالت سے کتنے لوگوں کو ان کی معمولی غلطیوں،خامیوں ،نادانیوں اور چھوٹی موٹی چالاکیوں کے احتساب سے استثنیٰ ملا ہے؟ ہم دوسروں کی معمولی سے معمولی غلطی پرمحتسب بن جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جس دن مالک کائنات نے ہمیں کٹہرے میں کھڑا کر لیا توحساب دے پائیں گے کیا؟؟؟

متعلقہ خبریں