سندھ حکومت پانی کے مسائل حل کرنے کے لئے تین بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن کی تکمیل پر کراچی کو یومیہ120 ملین گیلن اضافی پانی ملا کرے گا: بیرسٹر مرتضیٰ وہاب

کراچی (نمائندہ خصوصی) ایڈمنسٹریٹر کراچی، مشیر قانون و ترجمان حکومت سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ سندھ حکومت پانی کے مسائل حل کرنے کے لئے تین کام کر رہی ہے جن کی تکمیل پر 120 ملین گیلن اضافی پانی کراچی میں یومیہ ملا کرے گا، کے ایم سی جو کہتی تھی ہمارے پاس اختیار اور پیسہ نہیں وہی کے ایم سی اس وقت تعمیراتی کام کررہی ہے،کراچی والوں نے اسٹیٹس کو ختم کرنے کے لئے 2018 میں ووٹ کیا مگر نتائج وہ نہ مل سکے، حکومت سندھ نے گزشتہ سالوں میں کراچی میں متعدد ترقیاتی کام کئے ہیں،یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں ”کراچی۔آگے بڑھنے کا راستہ“ کے موضوع پر منعقدہ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر آئی بی اے کراچی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی، مختلف ملکوں کے سفیر، معززین شہر اور طلباء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ جس شہر کو اس کی آبادی نہیں معلوم آپ اس شہر کے لوگوں کو پانی کس طرح پلائیں گے؟ کینجھراور حب ڈیم سے کراچی کو پانی ملتا ہے،یہ دونوں سورسز گورنمنٹ آف پاکستان کے تحت چلتی ہیں،550 ملین گیلن پانی کراچی کو ملتا ہے جو مجموعی کھپت کا 45 فیصد ہے،سندھ حکومت تین کام کررہی ہے جو پانی کے مسائل حل کرسکتے ہیں، 100 ملین گیلن پانی حب ڈیم سے شہر میں لانا چاہتے ہیں، اس سے قبل 70 ملین گیلن پانی کنال کے ذریعے آتا ہے، دوسرا کام ہم ہالیجی سے پانی لانے کی کوشش کررہے ہیں، تیسرا کام ہم سی واٹر پر کام کررہے ہیں، ہم ڈی سیلی نیشن پلانٹ کے ذریعے شہریوں کے لئے پانی کی فراہمی ممکن بنائیں گے، ڈی سیلی نیشن پلانٹ کا منصوبہ ابراہیم حیدری میں شروع کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے بجلی کے بل میں ماہانہ پی ٹی وی کے لئے سو روپے لائسنس فیس کی مد میں لئے جاتے ہیں، میں نے کہا کیوں نہ ہم بھی اپنا ٹیکس ان بلوں سے لیں؟ 30 لاکھ لوگوں کو کے الیکٹرک بلز دیتی ہے، کے ایم سی نے 7 ارب 4 کروڑ اضافی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ شہر کو بہتر کرسکیں، اس معاملے میں وفاقی حکومت نے ہمیں روک دیا، ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ ہم نے اپنے پارکس، پیٹرول پمپ، ہٹس اور دکانوں کا ڈیٹا ڈیجٹلائز کرکے اپنی ویب سائٹس پر ڈال دیا ہے،یہ شفافیت کی جانب ایک قدم ہے، انہوں نے کہا کہ اگست میں جب میں نے چارج لیا میں نے کے ایم سی کے اثاثوں کی طرف نظر ڈالی، 16 اعشاریہ 1 ملین کی آبادی سے کے ایم سی 21 کروڑ روپے کا میونسپل ٹیکس وصول کرتی ہے، آخر کار کراچی کو صرف 16 کروڑ روپے کا ٹیکس ملتا ہے، کسی نے میئر سے پوچھا کہ آپ نے ٹیکس کیوں نہیں جمع کیا؟ کیونکہ انہوں نے آپ کو بتادیا تھا کہ وہ بے اختیار ہیں، 9100 دکانوں سے 10کروڑ سے بھی کم ریوینیو جمع ہوپاتا ہے، 245 ہٹس کے ایم سی کے پاس ہیں، 11 پیٹرول پمپس بھی موجود ہیں، آغا خان،لیاقت نیشنل اسپتال اور نیشنل اسٹیڈیم بھی کے ایم سی کی زمین پر ہیں، میں نے چاہا کہ ہٹس اور پیٹرول پمپ کے کرائے بڑھ جائیں لیکن وہ عدالت جاکر اسٹے آرڈر لے لیتے ہیں،انہوں نے کہا کہ پانچ سال قبل تک سندھ سیکریٹریٹ اور ڈی جے کالج کے اطراف پارکنگ کا مسئلہ سنجیدہ تھا، ہم نے بیسمنٹ پارکنگ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، ڈی ایچ اے کی بات کرتے ہیں جو فیڈرل لاء کے تحت چلتا ہے مگر پھر بھی وہاں کچرے، پانی اور دیگر مسائل ہیں، ساحل کی ٹرانسفارمیشن بہت ضروری تھی، سینڈزپٹ کی سڑک کی تعمیر 2018 میں شروع کی گئی، مچھلی چوک سے منوڑا تک پچھلے 20 ماہ میں ہم نے سڑک کی تعمیر کی، 30 جون 2022 تک امید ہے ہمارا ساحلی علاقہ آپس میں رابطے میں ہوگا،انہوں نے کہا کہ مجھے تعلیمی اداروں میں آکر طلباء سے مکالمہ کرنا اچھا لگتا ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں نے پاکستان کو خود منتخب کیا ورنہ بیرون ملک آسائش کے ساتھ زندگی گزار سکتا تھا، 2015 میں مجھے نقاد بننے کے بجائے سیاسی مراحل کو سمجھنے کا موقع ملا، مجھے لاء ڈپارٹمنٹ کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری دی گئی، اس کے بعد ایڈمنسٹریٹیو معاملات کی طرف گیا،پالیسیز کے بنانے میں ہم نے اہم کردار ادا کیا، ہندو میرج ایکٹ 2016 بنانے کا اعزاز سندھ کو حاصل ہوا، 2019 میں قیدیوں کے لئے اہم قانون پاس کرایا۔

متعلقہ خبریں