سینیٹ کمیٹی میں الیکشنز ترمیمی آرڈنینس 2022کثرت رائے سے مسترد
اسلام آباد (نمائندہ مقامی حکومت) سینٹ کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور نے گرما گرم بحث کے بعد ضابطہ اخلاق میں ترمیمی صدارتی آرڈیننس کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ صدراتی آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے انتخابی ضابطہ اخلاق میں ترمیم کر دی تھی ، جس کےذریعے وزیر اعظم ،وزرائے اعلیٰ ، وزراء اور دیگر عوامی عہدیداروں کو انتخابی جلسوں جلوسوں میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی ،بعد ازاں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ضابطہ اخلاق میں ترمیم کی تھی اور صرف پارلیمنٹرنز کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت دی گئی جبکہ عوامی عہدیداروں پر پابندی کو برقرار رکھا گیا ،الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم وزیر اعلیٰ کے پی اور دیگر وزرا ء کو خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جلسے کرنے پر نوٹس جاری کئے اور جرمانے کی سزائیں دیں ، حکومت کا موقف تھا کہ صدراتی آرڈیننس منسوخ کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں جس پر قائمہ کمیٹی میں گرما گرم بحث ہوئی ہے ۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت ہوا جس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشنز ترمیمی آرڈنینس 2022 سے تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کا میدان نہیں ملتا ،اسی لئے ہم نے عوامی عہدیداروں کو الیکشن مہم سے روکا اور جرمانے کئے ، سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور آرڈیننس کو مسترد کیا جائے،وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا آرڈیننس پر عملدرآمد سب کی ذمہ داری ہے، سینیٹر سیدعلی ظفر نے کہا جُرمانے اور نوٹسز آئین کی روح کے خلاف ، انہیں واپس لیا جائے ، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا تمام سیاسی جماعتوں کو خلاف ورزی پر نوٹسز جاری کئے گئے ، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے آرڈیننس جاری کیا ، سینیٹراعظم نذیر تارڑ نے کہا آرڈیننس الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت،آئین کی صریح خلاف ورزی ،مسترد کردینا چاہیے،آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی آئینی ادارے کے اختیارات کو روکا نہیں جا سکتا، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا پارلیمنٹ کے پاس الیکشن کمیشن کے اختیارات سلب کرنے کا اختیار نہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے اختیارات میں کمی نہیں کی جاسکتی ،موجودہ دنوں میں اس آرڈنینس کی وجہ سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی 98 خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جس میں 61خلاف ورزیاں حکومتی پارٹی کی جانب سے کی گئی ہیں۔قائمہ کمیٹی نے کثرت رائے سے آرڈنینس کو مسترد کر دیا، سینیٹر سید علی ظفر اورسینیٹر ثانیہ نشتر نے رائے دی کہ جب تک آرڈنینس پارلیمنٹ سے مسترد نہیں ہوتا قانون کا حصہ ہے اس پر عملدرآمد قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ سیکرٹری پارلیمانی امور نے بتایا کہ ایرا این ڈی ایم اے ضم کیا جارہا ہے،کمیٹی ملازمین کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، قائمہ کمیٹی نے 30 دن کے اندر معاملے کے حل کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔